متنازعہ وقف قانون کا اثر:سنبھل کی  درگاہ جنیٹہ شریف  پر نیا تنازعہ شروع

   انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ درگاہ وقف اراضی پر نہیں بلکہ سرکاری زمین پر تعمیر کی گئی ہے

 

نئی دہلی ،13 اپریل :۔

انتہائی متنازعہ وقف قانون کی منظوری کے بعد اس کے اثرات نظر آنے لگے ہیں ۔مسلمانوں کی جانب سے ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔دریں اثنا  سنبھل میں شاہی مسجد تنازعہ کے بعد ایک نیا تنازعہ شروع ہو گیا ہے۔  ابھی سنبھل شاہی جامع مسجد کا تنازع جاری ہے اسی دوران سنبھل کی معروف درگاہ جنیٹہ شریف کو لے کر  انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ درگاہ وقف اراضی پر نہیں بلکہ سرکاری زمین پر تعمیر کی گئی ہے۔

واضح رہے کہ  چندوسی کے جنیٹہ میں دادا معظمیہ شاہ کا ایک مشہور مزار ہے۔ لوگ دور دور سے اس درگاہ پر آتے ہیں۔ اسی گاؤں کے محمد جاوید نے وزیراعلیٰ یوگی سے شکایت درج کرائی ہے۔ محمد جاوید کا الزام ہے کہ جنیٹہ میں دادا معظمیہ شاہ کا پرانا مقبرہ ہے۔ یہاں وقف زمین ہے۔ وقف اراضی پر ناجائز قبضہ کیا گیا ہے۔ وقف بورڈ کی اراضی پر 2019 سے کوئی متولی نہیں ہے، وقف بورڈ کی اراضی پر قابض لوگ عرس کے نام پر ہر سال دو سے ڈھائی کروڑ روپے وصول کرتے ہیں۔ تاہم حلف نامہ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ عرس سے کوئی آمدنی نہیں ہوتی۔

چندوسی تحصیلدار دھریندر پرتاپ سنگھ نے بتایا کہ درگاہ کے بارے میں شکایت موصول ہوئی ہے۔ درگاہ کی دیکھ بھال اور دعویٰ کرنے والوں سے بات چیت ہوئی ہے۔ انہیں وقف سے متعلق دستاویزات جمع کرنے کے لیے دفتر بلایا گیا ہے۔ چھان بین کے بعد پتہ چلا کہ اس وقف جائیداد کا ریونیو ریکارڈ میں کہیں ذکر نہیں ہے، بلکہ یہ درگاہ کے نام پر رجسٹرڈ ہے اور کنسولیڈیشن میں بھی درگاہ کے نام پر رجسٹرڈ ہے۔ تاہم دعویداروں کا کہنا ہے کہ یہ وقف جائیداد ہے۔ فی الحال تفتیش کے بعد ہی پتہ چلے گا کہ یہ قبضہ کیسے اور کس بنیاد پر ہے۔ وقف جائیداد پر دعویٰ کی بنیاد کیا ہے؟

شکایت کنندہ کے مطابق، دادا معظمیہ شاہ کی درگاہ جو چندوسی میں بنیاکھیڑا ترقیاتی بلاک کے جنیٹا گاؤں پنچایت میں وقف اراضی پر کھڑی ہے، اس پر شاہد میاں نامی شخص کا ناجائز قبضہ  ہے۔شکایت میں کہا گیا ہے کہ وقف اراضی 2019 سے کسی متولی (نگران) کے بغیر ہے اور خالی رہتی ہے لیکن شاہد مبینہ طور پر درگاہ پر منعقد ہونے والے سالانہ عرس میلے سے کافی آمدنی حاصل کر رہا تھا۔چندوسی تحصیلدار دھیریندر پرتاپ سنگھ نے کہا کہ جائیداد کا ریونیو ریکارڈ میں وقف اراضی کے طور پر اندراج نہیں ہے اور جاری تحقیقات اب 2019 سے درگاہ سے متعلق مالی لین دین پر توجہ مرکوز کرے گی۔