متنازعہ وقف ترمیمی قانون کے خلاف ہر سطح پر احتجاج کریں گے،چاہے جو قربانی دینی پڑے
جمعیۃ علمائے ہند کی مجلس عاملہ کے اجلاس اختتامی پروگرام میں جمعیۃ کے صدر مولانا محمود مدنی کا خطاب،متنازعہ وقف قانون کو آئینی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا گیا

نئی دہلی،13 اپریل :۔
انتہائی متنازعہ وقف قانون کے خلاف ملک بھر میں مسلمانوں کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ملک کی تمام ملی تنظیموں نے متحدہ طور پر ہر سطح پر اس قانون کے خلاف احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سپریم کورٹ میں اس متنازعہ قانون کے خلاف پہلے ہی درجنوں عرضیاں دائر کی جا چکی ہیں آئندہ 16 اپریل کو سپریم کورٹ میں اس پر سماعت متوقع ہے۔ دریں اثنا مسلمانوں کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ جمعیۃ علماء ہند کی ورکنگ کمیٹی نے بھی آج کے اختتامی اجلاس میں شدید مذمت کرتے ہوئے اسے آئینی حقوق کی سنگین خلاف ورزی اور ہندوستان میں مسلمانوں کی مذہبی آزادیوں پر حملہ قرار دیا ہے۔
اختتامی پروگرام میں آج منظور کی گئی قرارداد میں کمیٹی نے ایکٹ کی کئی اہم دفعات پر "سخت تشویش” کا اظہار کیا، خاص طور پر ” وقف بائی یوزر” کے خاتمے پر شدید بے چینی ظاہر کی گئی ۔ وقف بائی یوزر کے خاتمے سے 400,000 سے زیادہ مذہبی مقامات کی حیثیت کو خطرہ لاحق ہو گیا ہےجو تاریخی طور پر وقف املاک کے طور پر تسلیم شدہ ہیں۔
قرارداد میں زور دیا گیا ہے کہ نیا قانون متعدد آئینی ضمانتوں کو کمزور کرتا ہے، جن میں آرٹیکل 14 (قانون کی نظر میں مساوات)، 15 (امتیازی سلوک کی ممانعت)، 21 (زندگی اور ذاتی آزادی کا تحفظ)، 25 اور 26 (مذہب کی آزادی)، 29 (اقلیتوں کے مفادات کا تحفظ)، اور 300-A (جائیداد کا حق) شامل ہیں۔
جمعیۃ علمائے ہند کے صدر سید محمود اسعد مدنی نے کہا کہ ترمیم شدہ ایکٹ کے سب سے متنازعہ پہلوؤں میں سے ایک مرکزی وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈ دونوں میں غیر مسلموں کی شمولیت اور بعض صورتوں میں غلبہ ہے۔ تنظیم نے استدلال کیا کہ یہ اسلامی مذہبی امور میں صریح مداخلت ہے اور آرٹیکل 26 کے تحت محفوظ مذہبی برادریوں کی خود مختاری کی خلاف ورزی ہے۔
اس قانون کو "اکثریتی تسلط” کے مظہر کے طور پر بیان کرتے ہوئے، جمعیۃ نے واضح طور پر اس قانون کو مسترد کر دیا اور مرکزی حکومت پر مسلمانوں کو پسماندہ کرنے اور ان کی مذہبی شناخت کو کمزور کرنے کی کوشش کرنے کا الزام لگایا۔ قرارداد میں کہا گیا کہ ’’مسلمانوں کو دوسرے درجے کی شہریت کی طرف دھکیلنے کی ایک منظم کوشش ہے۔
کمیٹی نے اپنے صدر مولانا محمود مدنی کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات پر اطمینان کا اظہار کیا۔ جمعیت نے عدالت میں مضبوط نمائندگی کو یقینی بنانے کے لیے سینئر قانونی ماہرین کو شامل کرنے کی اہمیت پر بھی زور دیا۔
جمعیۃ علمائے ہنداس بات کا اعادہ کرتے ہوئے کہ وقف اسلامی شریعت کا ایک بنیادی عنصر ہے متنبہ کیا کہ اس کی مذہبی نوعیت کو متاثر کرنے والی کوئی بھی تبدیلی "مکمل طور پر ناقابل قبول” ہے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ مستقبل میں کسی بھی ترمیم کی بنیاد صرف اور صرف انتظامی بہتری پر کی جائے، جیسا کہ ماضی میں کیا گیا تھا۔
اس کے علاوہ، کمیٹی نے اس کی مذمت کی جسے اس نے وقف املاک کے بارے میں سرکاری افسران اور بعض فرقہ پرست عناصر کے ذریعہ پھیلایا جانے والا "گمراہ کن پروپیگنڈہ” قرار دیا۔ انہوں نے اس بیانیے کا فعال طور پر مقابلہ کرنے اور حقائق پر مبنی معلومات کو عوام کے سامنے پیش کرنے کا عہد کیا۔
جمعیت نے پرامن احتجاج کے آئینی حق کی بھی توثیق کی اور حکام کی جانب سے قانونی کارروائی یا تشدد کے ذریعے مظاہروں کو دبانے کی کسی بھی کوشش پر تنقید کی ۔جمعیتہ علمائے ہند کے صدر مولانا محمود مدنی نے اس موقع پر واضح انداز میں کہا کہ ہم وقف ایکٹ کے خلاف احتجاج کے حق میں ہیں ،ہم ہر جگہ اور ہر لیول پر احتجاج کریں گے ،چاہے جو قربانی دینی پڑے ،یہ لڑائی جاری رہے گی۔ مولانا مدنی نے اسی کے ساتھ خبردار کیا کہ جہاں بھی تشدد یوگا وہ تحریک کو نقصان پہنچائے گا اور نہ یہ مسئلہ کا حل ہے ہم ہر تشدد کی مذمت کرتے ہیں۔
مرشد آباد میں تشدد پر کیے گیے سوال پر صدر جمعیۃ نے پلٹ وار کر تے ہوئے کہا کہ یہ سوال وزیر داخلہ امت شاہ سے پوچھیں،کیا اس کی ذمہ داری بھی مسلمان پر ڈالی جائے گی؟اخر وہاں حالات پر قابو نہ پانے کا ذمہ دار کون ہے۔
انہوں نے کہا کہ امت شاہ بل کے نام پرجھوٹ بول رہے ہیں ،ملک کو گمراہ کررہے ہیں ،ـ یہ سرکار اکثریتی اپروچ کے ساتھ کام کر رہی ہے ہم آخری دم تک پورے صبر کے ساتھ انصاف کے حصول تک پرامن لڑائی لڑیں گے چاہے جو قربانی دینی پڑے۔
اس موقع پر پریس کانفرنس میں موجود جمعیۃ کے میڈیا سکریٹری نیاز فاروقی ایڈوکیٹ نے کہا کہ جس طرح احتجاج کرنے والوں کو کچلا جارہا ہے ،نوٹس دیے گیے ہیں یہ لڑائی جمہوریت بنام ڈکٹیٹر شپ ہوگئی ہے ،دہشت پھیلائی جارہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ احتجاج توہوگا چاہے لاٹھی چلے یا گولی ،البتہ انہوں نے تاکید کی کہ نہ تو تشدد کریں اور نہ ہونے دیں۔