متنازعہ وقف ترمیمی قانون کی منسوخی تک احتجاج کا سلسلہ جاری رہے گا
حیدر آباد میں مسلم پرسنل لا بورڈ کی قیادت میں زبر دست احتجاج ،لاکھوں مسلمانوں کی شرکت ،قانون کی منسوخی تک احتجاج کرنے کا عزم

نئی دہلی ،حیدرآباد۔20 ، اپریل:۔
متنازعہ وقف ترمیمی قانون کے خلاف ملک بھر میں احتجاجات کا سلسلہ جاری ہے۔ اسی سلسلے میں گزشتہ شب سرزمین حیدرآباد میں ایک زبر دست احتجاج کیا گیا جس میں انسانی سروں کا سیلاب نظر آیا۔اس عظیم احتجاج سے مرکزی حکومت کو واضح پیغام دیاگیاکہ اس ملک کا غیورمسلمان اور سیکولر ہندو بھائی وقف ترمیمی قانون کو ردکرتے ہیں اور اس قانون سے دستبرداری تک اپنا احتجاج جاری رکھیں گے۔
کل ہند مسلم پرسنل لاء بورڈ کے زیرا ہتمام دارالسلام میں وقف ترمیمی قانون کیخلاف زبردست احتجاجی جلسہ عام منعقد کیاگیا۔احتجاجی جلسہ عام میں لاکھوں افراد نے شرکت کی اور وقف ترمیمی بل کیخلاف فلک شگاف نعرے بلند کئے۔دارالسلام کا وسیع وعریض میدان اپنی تنگ دامنی کا شکوہ کررہاتھا اور میدان کے باہر حد نظر تک شرکاء کے سروں کا سمندر دیکھاگیا۔
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صدر کل ہند مسلم پرسنل لاء بورڈ نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ آج چند گوشے یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ سپریم کورٹ نے وقف ترمیمی قانون کی دوشقو ں پر اعتراض کیاہے۔لہذا اب وقف ترمیمی قانون کیخلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے پرزور انداز میں کہاکہ یاد رکھیں ایسے تاثر دھوکہ پر مبنی ہیں اور مسلمان کسی بھی قسم کی غلط فہمی کا ہرگز شکار نہ ہوں۔انہوں نے کہاکہ عدالت عظمیٰ نے وقف ترمیمی قانون کو ابھی مکمل طور پر ردنہیں کیاہے بلکہ وقتی راحت فراہم کی ہے۔انہوں نے کہاکہ ہم توقع رکھتے ہیں کہ سپریم کورٹ تقاضائے انصاف کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس سارے قانون کو ردکرے گی۔لیکن تب تک ہمیں مطمئن نہیں ہوناہے۔مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہاکہ لاء آف لیمیٹیشن ایکٹ کو قدیم وقف قانون میں اوقافی اراضیات سے مستثنیٰ قرار دیاگیاتھا۔تاہم اب اس قانون کو اوقافی اراضیات پر بھی قابل اطلاق بنایاگیاہے۔
صدرکل ہند مسلم پرسنل لاء بورڈ نے کہاکہ اگر کوئی اوقافی اراضیات پر 12سال یا اس سے زائد عرصہ سے قابض ہوتاہے تو یہ وقف اراضی قابض کی ملکیت سمجھی جائے گی۔ماضی میں وقف کو لاء آف لیمیٹیشن ایکٹ سے مستثنیٰ رکھاگیاتھا لیکن اب قابل اطلاق بنانے کے باعث کئی اوقافی اراضیات ہمارے ہاتھ سے چلی جائیں گی۔انہوں نے کہاکہ اس بات سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ کس قدر خطرناک قانون ہے۔ملک بھر میں کئی اوقافی جائیدادوں پر طویل عرصہ سے غیر مجاز قبضہ جات ہیں۔غیر مجاز قابضین کو کہیں حکومتوں کی اور کہیں بڑے بڑے سرمایہ داروں کی پشت پنائی حاصل ہے۔اگر وقف ترمیمی قانون کی اس شق پر عمل ہوتاہے تو کئی اوقافی جائیدادیں جو غیر مجاز قابضین کے قبضہ میں ہیں۔ہمارے ہاتھوں سے چلی جائیں گی۔اوقاف کو بھاری نقصان ہوگا۔نئے قانون میں اس بات کو بھی شامل کیاگیاہے کہ جو چیزیں آثار قدیمہ کے تحت آئیں گی وہ بھی وقف کی ملکیت باقی نہیں رہیں گی۔
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے شرکاء کو دعوت فکر دی اور کہاکہ غور کریں ہماری مکہ مسجد 300سالہ قدیم ہے۔اگر حکومت اس مسجد کو آثار قدیمہ کے تحت اعلان کردیتی ہے تو پھر یہ مسجد وقف کی پراپرٹی باقی نہیں رہے گی۔آپ اس میں نماز ادا نہیں کرسکیں گے۔صرف ایک سیاح یا ٹورسٹ کے طور پر مسجد کو دیکھ سکتے ہیں۔ایسے کئی خطرناک ترمیمات اس قانون میں شامل ہیں۔
مسلم پرسنل لا بورڈ کی قیادت میں حیدر آباد میں احتجاج میں شامل علماودانشور
انہوں نے پرزورانداز میں کہاکہ ہمارے ملک ہندوستان میں ہندو اور مسلمانوں کے درمیان ہمیشہ سے قومی یکجہتی رہی ہے۔بھائی چارہ کا تعلق رہاہے۔بہت سارے مسلمانوں نے ہندو اداروں کیلئے اپنی اراضیات کا عطیہ دیاہے۔حضور نظام نے بھی کئی عطیات دیئے ہیں۔اسی طرح ہمارے ہندو بھائیوں نے بھی اپنی جائیدادیں وقف کی ہیں۔اس کالے قانون کے باعث ایسی تمام جائیدادیں وقف کے دائرے سے باہر نکل جائیں گی۔ لہذا ہمیں عزم کے ساتھ آگے بڑھناہے اور جب تک مکمل طورپر اس قانون کو ردنہیں کیاجاتا ہمیں اپنا احتجاج جاری رکھناہوگا۔
بیرسٹر اسد اویسی نے شرکائے جلسہ سے خواہش کی کہ وہ دونعرے لگائیں۔انہوں نے کہاکہ پہلا نعرہ کادارالسلام کے باہر موجود شرکاء جواب دیں گے جبکہ دوسرے نعرے کا دارالسلام کے گراؤنڈ میں اور باہر موجود تمام شرکاء جواب دیں گے۔بیرسٹر اسد الدین اویسی نے نعرے تکبیر کی صدا دی۔دارالسلام کے گراؤنڈ کے باہر موجود ہزاروں شرکاء نے اللہ اکبر کی فلک شگاف صدا بلند کی۔جب دوسری مرتبہ بیرسٹر اویسی نے نعرہ تکبیر کی ندا لگائی تو دارالسلام کے گراؤنڈ اور باہر موجود تمام شرکاء کی اللہ اکبر کی فلک شگاف صداؤں سے فضاء گونج اٹھی اور معطر ہوگئی۔پھر بیرسٹر اویسی نے شرکائے جلسہ سے خواہش کی کہ وہ اپنے اپنے موبائل فونس کی لائٹ آن کریں تاکہ بی جے پی والوں کی دماغ کی بتی جل سکے۔انہوں نے کہاکہ وقف ترمیمی قانون کیخلاف سارے ملک کو پیغام دیاجائے۔بیرسٹر اویسی نے جلسہ کے اختتام پر شرکاء کو پرامن طور پر اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوجانے کی تلقین کی اور کہاکہ واپسی کے دورا ن پرچم نہ لہرائے جائیں۔صبروتحمل کا مظاہرہ کیاجائے۔ بیرسٹر اسد اویسی نے کہاکہ وقف ترمیمی قانون کیخلاف مسلم پرسنل لاء بورڈ اور ہم اس لئے احتجاج کررہے ہیں کہ سیاسی طاقتیں اور ملک کے حکمران ہم کو مٹاناچاہتے ہیں اور ہم ان کو یہ بتاناچاہتے ہیں کہ ہم خود کو مٹنے نہیں دیں گے۔انشاء اللہ تعالیٰ جمہوری طریقہ سے تم مٹ جاؤگے ہم یہی بات ان کو بتاناچا ہ رہے ہیں۔بیرسٹر اویسی نے کہاکہ ہم جھکنے والے نہیں ہیں۔ بیرسٹر اویسی نے کہاکہ بی جے پی 2014میں برسراقتدار آئی۔پہلے طلاق ثلاثہ پر قانون بنایاگیا۔پھر سی اے اے قانون مذہب کی بنیاد پر لایاگیا۔پھر یو اے پی اے کے قانون کو گندے طریقہ سے طاقتوراورمضبوط بنایاگیا۔بی جے پی زیر قیادت ریاستوں میں تبدیلی مذہب کا قانون بنایاگیا اوراب یکساں سیول کوڈ کی بات کی جارہی ہے۔ بیرسٹر اسد اویسی نے کہاکہ گزشتہ 11برسوں سے نریندر مودی مسلمانوں کی مذہبی شناخت اور تشخص پر حملے کررہے ہیں۔ 11برسوں سے نریندر مودی مسلمانوں کی مساجد کو چھیننے کی کوشش کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنی لڑائی دیگر سیکولر ہندوبھائیوں کو ساتھ لے کر لڑرہے ہیں۔یاد رکھو بی جے پی اور سنگھ پریوار ہماری صفوں میں سے بعض میر جعفر اور میر صادق کو کھڑا کریں گے۔ لہذا ہم کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔بیرسٹر اسد اویسی نے آخر میں کہاکہ مرکزی حکومت کو وقف ترمیمی قانون کو واپس لینا پڑے گا۔جس طرح ہمارے کسان بھائیوں نے ہم کو راستہ دکھایا۔ہم اسی طرز پر احتجاج کریں گے۔جب تک اس سیاہ قانون کو واپس نہیں لیاجاتا ہم پرامن اور جمہوری انداز میں احتجاج کریں گے۔ان کے علاوہ دیگر اکابرین نے بھی خطاب کیا۔اور اس قانون کی منسوخی تک احتجاج کا سلسلہ جاری رکھنے کا اعلان کیا۔