متنازعہ وقف ترمیمی قانون کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر سپریم کورٹ میں سماعت ملتوی،آئندہ سماعت 20 مئی کو

نئی دہلی، 15 مئی:۔
سپریم کورٹ نے جمعرات کو وقف ترمیمی ایکٹ کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر سماعت ملتوی کر دی۔ چیف جسٹس بی آر گو ئی کی سربراہی والی بنچ نے اس معاملے کی سماعت 20 مئی کو کرنے کا حکم دیا۔عدالت نے کہا کہ اس معاملے میں عدالت کا پہلے کا عبوری حکم جاری رہے گا۔
وقف ایکٹ 1995 کو چیلنج کرنے والی درخواست پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم 1995 کے قانون کو 2025 میں کیسے چیلنج کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں۔مرکزی حکومت نے وقف ترمیمی قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے والی عرضیوں کی مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ اس ترمیم سے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔ سپریم کورٹ میں داخل جوابی حلف نامہ میں مرکزی حکومت نے کہا ہے کہ وقف ایکٹ میں ترمیم جائیدادوں کے سیکولر انتظام کے لیے ہے۔
مرکزی حکومت نے حلف نامہ میں کہا ہے کہ وقف ترمیمی قانون کسی بھی طرح سے آئین کے آرٹیکل 25 اور 26 کی خلاف ورزی نہیں کرتا ہے۔ یہ ترمیم حکومت کے دائرہ اختیار میں کی گئی ہے۔ مرکزی حکومت نے کہا ہے کہ وہ جائیدادیں جو پہلے ہی وقف کے طور پر رجسٹرڈ ہیں، صارف کی فراہمی سے متاثر نہیں ہوں گی۔ ایک غلط بیانیہ پھیلایا جا رہا ہے کہ اس سے صدیوں پرانی وقف املاک متاثر ہوں گی۔ اس سے پہلے 17 اپریل کو مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ وقف ترمیمی قانون کی متنازعہ دفعات کو فی الحال لاگو نہیں کیا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس قانون پر فی الحال جمود برقرار رہے گا۔
مرکزی حکومت کے بیان کو ریکارڈ پر لیتے ہوئے چیف جسٹس سنجیو کھنہ کی سربراہی والی بنچ نے مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب داخل کرنے کی ہدایت کی تھی۔
سماعت کے دوران مرکزی حکومت کی جانب سے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا تھا کہ پابندی لگانے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ مہتا نے کہا کہ آپ ایک ایسے قانون کو روکنے جا رہے ہیں جسے پارلیمنٹ نے پاس کیا ہے۔ ملک کے سالیسٹر جنرل کی حیثیت سے میں یہ بات بڑی ذمہ داری کے ساتھ کہہ رہا ہوں۔ مہتا نے کہا کہ میں نے عدالت کی باتوں پر توجہ دی ہے، لیکن صرف چند حصوں کو دیکھ کر پورے قانون پر پابندی لگا دینا درست نہیں ہوگا۔ مہتا نے کہا تھا کہ مرکزی حکومت نے یہ قانون بنانے سے پہلے لاکھوں لوگوں سے بات کی تھی، ہم عوام کے سامنے جوابدہ ہیں۔ وقف بورڈ نے کئی گاو ¿ں کی اراضی پر دعویٰ کیا ہے۔ ایسے میں عام لوگوں کے مفادات کا بھی خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔ عدالت کے لیے اس قانون پر فوری پابندی عائد کرنا بہت سخت اقدام ہوگا۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا 1995 کے قانون کے تحت وقف میں رجسٹرڈ جائیدادوں پر کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ مہتا نے تب جواب دیا تھا کہ یہ معاملہ قانون میں ہی شامل ہے۔ تب چیف جسٹس نے کہا تھا کہ ٹھیک ہے لیکن فی الحال وقف بورڈ یا وقف کونسل میں کوئی نئی تقرری نہیں ہونی چاہئے۔ چیف جسٹس نے کہا تھا کہ ہم اپنے سامنے کی صورتحال کو مدنظر رکھ کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ صورتحال مکمل طور پر بدل جائے۔ ہم قانون کو نہیں روک رہے ہیں۔