متنازعہ وقف ترمیمی قانون پر مباحثہ سے ڈی یو کے طلبا کو روکا گیا
پولیس کی مداخلت پر طلبا کا احتجاج،ڈی یو لا ء فیکلٹی کے طلبا نے وقف ترمیمی ایکٹ پر مباحثہ کا اہتمام کیا تھا

نئی دہلی ،16 اپریل :۔
انتہائی متنازعہ وقف ترمیمی قانون کی مخالفت کا سلسلہ جاری ہے دریں اثنا سپریم کورٹ میں داخل عرضیوں پر بھی عدالت عظمیٰ نے آج سماعت کی۔اس احتجاج اور اعتراض کے درمیان یونیور سٹیوں میں بھی اس نئے قانون پر قانون کے طلبا کی جانب سے بحث و مباحثہ کا سلسلہ جاری ہے۔حالیہ دنوں میں علی گڑھ مسلم یونیور سٹی اور مولانا آزاد نینشل یونیور سٹی میں طلبا نے اس قانون کے مضمرات کا حوالہ دے کر احتجاج کیا تھا ۔ اس دوران دہلی یونیور سٹی میں جب قانون کے طلبا نے نئے وقف قانون پر مباحثہ کا اہتمام کیا تو پولیس کی جانب سے مداخلت کی گئی اور مباحثہ کے انعقاد سے روک دیا گیا ۔
سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو میں قانون کے طلبا اور پولیس کے درمیان بحث کو دیکھا جا سکتا ہے۔جس میں قانون کے طلبا پولیس کی مداخلت پر اعتراض کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں ۔ انجلی نامی ایک طالبہ نے پولیس بحث کرتے ہوئے کہا کہ اے بی وی پی کے طلبا کو مارچ اور احتجاج کے لئے آڈیٹوریم دیا جاتا ہے اور ان کے لئے سرخ قالین بچھائے جاتے ہیں جبکہ ہم قانون کے طلبا کو نئے قانون کو بحث اور مباحثہ سے روکا جا رہا ہے۔اس دوران طالبہ نے پولیس سے کہا کہ ہم قانون کے طلبا وقف ترمیمی قانون پر بحث نہیں کریں گے تو کون کرے گا ۔ طالبہ نے کہا کہ ہم کوئی غیر قانونی کام نہیں کر رہے ہیں ۔
واضح رہے کہ بی جے پی کی حکمرانی والی ریاستوں میں متنازعہ وقف ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج سے بھی روکا جا رہا ہے خاموش احتجاج کرنے والوں پر بھی ایف آئی آر درج کئے جا رہے ہیں ۔اب یونیور سٹیوں میں بھی ان کی مداخلت ان کی نیت پر سوال کھڑے کر رہی ہے۔ دہلی یونیورسٹی میں قانون کے طلباء کو وقف ترمیمی بل پر بحث کرنے سے روکنا آزادی اظہار پر ممکنہ پابندی کا اشارہ دے سکتا ہے۔ سوال پوچھنا اور بحث کرنا جمہوری عمل کا ایک اہم حصہ ہے، اور اس کا دباؤ تشویشناک ہے۔
یونیورسٹیوں میں آزادی فکر ایک بنیادی حق ہے اور جمہوری تعلیم کی بنیاد ہے۔طلباء کو مختلف موضوعات پر بحث کرنے، سوالات کرنے اور بحث کرنے کا حق ہونا چاہیے ۔اگر ایسی پابندیاں لگائی جاتی ہیں، تو اس سے یونیورسٹیوں میں تعلیمی ماحول متاثر ہو سکتا ہے اور طلباء کی ترقی میں رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے۔