متنازعہ وقف ترمیمی قانون :شدت پسند وں کے بعد بی جےپی رہنماؤں  کا بھی سپریم کورٹ پر حملہ

بی جے پی رکن پارلیمنٹ نشی کانت دوبے نے مذہبی جنگ بھڑکانے کے لیے سپریم کورٹ  کوذمہ دار  قرار دیا،  بیان پر ہنگامہ،اپوزیشن حملہ آور،جے پی نڈا نے ذاتی بیان قرار دیا

نئی دہلی ،20 اپریل :۔

متنازعہ وقف ترمیی قانون کے سلسلے میں قانون کی آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر سپریم کورٹ میں سماعت جاری ہے۔حالیہ سماعت میں سپریم کورٹ نے قانون کی متعدد شقوں پر سوال کھڑے کرتے ہوئے مرکزی حکومت سے  ایک ہفتے میں جواب طلب کیا ہے ۔مگر سپریم کورٹ کا یہ ہدایت نامہ دائیں بازو کی شدت پسند تنظیموں کو ایک آنکھ نہیں بھا رہی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہر چہار جانب سے سپریم کورٹ پر حملہ اور نازیبا تبصرہ کا سلسلہ جاری ہے۔گزشتہ روز سوشل میڈیا ایکس پر سپریم کوٹھا بند کرو کا ٹرینڈ چلایا گیا ۔اب شدت پسندوں کے اس متنازعہ تبصرہ اور عدلیہ کے خلاف نری جہالت پر بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ بھی حمایت کرنے لگے ہیں ۔بی جے پی رکن پارلیمنٹ  نشی کانت دوبے نے سپریم کورٹ کو لے کر ایسا  ہی ایک بیان دیا ہے جس سے سیاسی طوفان کھڑا ہوگیا ہے۔ نشی کانت دوبے نے کہا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ملک میں ہونے والی تمام خانہ جنگیوں کے ذمہ دار ہیں۔ انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ سپریم کورٹ ملک میں مذہبی جنگ بھڑکانے کی ذمہ دار ہے۔ نشی کانت دوبے کے بیان پر اپوزیشن کی جانب سے شدید تنقید کی جا رہی ہے اور اسے آئین کے خلاف بی جے پی کے ارادے کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے تاہم بی جے پی نے نشی کانت دوبے کے بیان سے خود کو الگ کر لیا ہے۔

درحقیقت جھارکھنڈ کے گوڈا سے چار بار کے رکن پارلیمنٹ نشی کانت دوبے نے کہا کہ سپریم کورٹ اپنی حدود سے باہر جا رہا ہے، انہوں نے کہا کہ عدالت پارلیمنٹ کے ذریعہ منظور شدہ قوانین کو منسوخ کر رہی ہے اور یہاں تک کہ سپریم کورٹ کے ججوں کی تقرری کرنے والے صدر کو بھی ہدایات دے رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 368 کے تحت قانون بنانا پارلیمنٹ کا کام ہے اور عدالت کا کردار قانون کی تشریح کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر کام کے لیے سپریم کورٹ جانا پڑے تو کیا پارلیمنٹ کو بند کر دینا چاہیے؟ بی جے پی رکن پارلیمنٹ نے مزید کہا کہ اگر ہر چیز کے لیے قانون بنائے گئے ہیں تو سپریم کورٹ کہاں سے اور کیسے نیا قانون بنا رہی ہے۔

بی جے پی رکن پارلیمنٹ نشی کانت دوبے نے پوچھا کہ آپ تقرری کرنے والے اتھارٹی کو ہدایات کیسے دے سکتے ہیں؟ صدر ہند چیف جسٹس کا تقرر کرتا ہے، پارلیمنٹ اس ملک کے قوانین بناتی ہے۔ کیا آپ اس پارلیمنٹ کو ہدایات دیں گے؟

بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا نے نشی کانت دوبے کے بیان سے خود کو دور کرتے ہوئے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کا بی جے پی  کے ارکان  پارلیمنٹ نشی کانت دوبے اور دنیش شرما کے عدلیہ اور ملک کے چیف جسٹس کے بارے میں دیے گئے بیانات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ یہ ان کا ذاتی بیان ہے۔ بی جے پی نہ تو اس طرح کے بیانات سے متفق ہے اور نہ ہی اس طرح کے بیانات کی حمایت کرتی ہے۔ بی جے پی ان بیانات کو یکسر مسترد کرتی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے ہمیشہ عدلیہ کا احترام کیا ہے اور اس کے احکامات اور تجاویز کو بخوشی قبول کیا ہے۔ کیونکہ بحیثیت فریق ہم سمجھتے ہیں کہ سپریم کورٹ سمیت ملک کی تمام عدالتیں ہماری جمہوریت کا اٹوٹ حصہ ہیں۔ اس کے علاوہ یہ آئین کے تحفظ کا ایک مضبوط ستون ہے۔ نڈا نے کہا کہ میں نے ان دونوں کو اور باقی سب کو ہدایت دی ہے کہ وہ ایسے بیانات نہ دیں۔

نشی کانت کے ریمارکس حال ہی میں منظور شدہ وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 پر سپریم کورٹ میں جاری سماعت کے درمیان آئے ہیں۔ سماعت کے دوران عدالت نے ایکٹ کی کچھ دفعات پر سوالات اٹھائے تھے، جن میں ‘وقف بائے یوزر’ کی فراہمی بھی شامل ہے۔ اس کے بعد حکومت نے عدالت عظمیٰ کو یقین دلایا تھا کہ وہ 5 مئی کو ہونے والی اگلی سماعت تک وقف (ترمیمی) ایکٹ کے کچھ حصوں کو نافذ نہیں کرے گی۔

نشی کانت دوبے کے بیان کو جہاں کانگریس نے اسے عدلیہ کے لیے ایک دھچکا قرار دیا، وہیں کانگریس لیڈر سلمان خورشید نے کہا کہ جو کوئی قانونی نظام کو تھوڑا سا بھی سمجھتا ہے وہ عدلیہ پر ایسا تبصرہ کبھی نہیں کرے گا۔

سلمان خورشید نے کہا کہ اگر کوئی رکن پارلیمنٹ سپریم کورٹ یا کسی بھی عدالت سے سوال کرتا ہے تو یہ بہت افسوسناک ہے۔ ہمارے عدالتی نظام میں حتمی فیصلہ حکومت کا نہیں سپریم کورٹ کا ہے۔ اگر کوئی یہ بات نہ سمجھے تو بہت دکھ ہوتا ہے۔

جے رام رمیش نے کہا کہ وہ سپریم کورٹ کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آئینی عہدیدار، وزرا، بی جے پی کے ارکان پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے خلاف بول رہے ہیں کیونکہ سپریم کورٹ ایک بات کہہ رہی ہے کہ جب کوئی قانون بنایا جائے تو آپ کو آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف نہیں جانا چاہئے اور اگر قانون آئین کے خلاف ہے تو ہم اسے قبول نہیں کریں گے ۔عام آدمی پارٹی نے بی جے پی کے  رکن پارلیمنٹ کے اس نازیبا تبصرہ پر توہین عدالت کا مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا ہے۔

بہر حال وقف ترمیمی قانون کے بیان پر سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ پر دائیں بازو کی نظریات کی حامل تنظیمیں مسلسل سپریم کورٹ کے خلاف سر گرم ہیں اور سپریم کورٹ کو سپریم کوٹھا اور شریعہ کورٹ آف انڈیا قرار دیتے ہوئے بند کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔اب بی جے پی رہنماؤں کے بیان کے بعد یہ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ ان شدت پسندوں کو حوصلہ ملے گا اور وہ مزید شدت کے ساتھ سپریم کورٹ پر حملہ آور ہوں گے۔