متنازعہ وقف ترمیمی قانون  سےبہار کے 3900مدارس  پر خطرہ 

 بہار ،اوڈیشہ ،جھارکھنڈ امارت شرعیہ کے امیر مولانا احمد ولی فیصل رحمانی کا بیان سوشل میڈیا پر وائرل،انہوں نے کہا کہ اس قانون میں کہیں بھی غریب مسلمانوں کی فلاح و بہبود کو کائی ذکر نہیں

نئی دہلی ،14 اپریل :۔

انتہائی متنازعہ وقف ترمیمی قانون کے خلاف ملک بھر میں مسلمانوں کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ دریں اثنا اس سلسلے میں حکومت کی جانب سے پیش کئے گئے وقف ترمیمی قانون کے نکات کو بھی مسلمانوں کے درمیان واضح کیا جا رہا ہے اور بتایا جا رہا ہے کہ یہ نیا وقف ترمیمی قانون کیوں مسلمانوں کیلئے خطرناک ہے اور اس کے پس پردہ مودی حکومت کی نیت کیا ہے؟اس کے مضمرات کو واضح کیا جا رہا ہے۔اسی سلسلے میں بہار اوڈیشہ اور جھارکھنڈ کے  امارت شرعیہ کے امیر  مولانا احمد ولی فیصل رحمانی  کی ایک لمبی تقریر سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے جس میں انہوں نے وقف ترمیمی قانون میں کی گئی ایسی تبدیلیوں کو واضح کیا ہے جس مسلمانوں کے اوقاف کیلئے انتہائی مضر اور خطرناک ہیں ۔ وقف ترمیمی قانون کے حوالے سے انہوں نے مرکزی حکومت پر سنگین الزامات لگائے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بل جلد بازی میں اور غلط ارادوں سے لایا گیا ہے اور اس میں کل 44 بڑی خامیاں ہیں۔

مولانا رحمانی نے کہاکہ یہ بل لینڈ مافیا کے مفاد میں تیار کیا گیا ہے اور اس کے ذریعے حکومت کی جانب سے وقف املاک پر قبضہ کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہ بل وقف کے تحفظ کو کمزور کرتا ہے اور ہماری مذہبی اور سماجی شناخت کو بھی خطرہ میں ڈالتا ہے‘‘۔انہوں نے اس معاملے میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حمایت کرنے والی دیگر جماعتوں سے کہا کہ وہ اس قانون کے خلاف کھڑی ہوں اور مرکز پر زور ڈالیں کہ وہ اس قانون کو واپس لے، کیونکہ یہ قانون کسی بھی صورت میں مسلمانوں کے مفاد میں نہیں ہے۔

فیصل رحمانی نے اس قانون کی مکمل کاپی دکھاتے ہوئے صاف صاف کہا کہ اس میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا ہے کہ اس سے غریب مسلمانوں کا بھلا ہوگا یا غریب مسلمانوں کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں لکھا گیا ہے۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ترمیمی قانون میں ایسے کالم لکھے گئے ہیں جنہیں دیکھ کر پوری طرح اندازہ ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں یہ لینڈ مافیا کے مفاد میں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہم بہار کی مثال دیتے ہیں، بہار میں 3900 مدارس چلتے ہیں اور سبھی وقف کی جائیداد پر بنائے گئے ہیں۔ جب مدرسہ بورڈ بنایا گیا تو تمام مدارس کو سپورٹ کے تحت لایا گیا اور سبھی ٹرسٹ کے تحت آتے ہیں، لیکن وقف ترمیمی قانون میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ ٹرسٹ بنانے کے رہنما اصولوں کے مطابق آپ کی جائیداد  وقف کے دائرے سے باہر ہو جائے گی ۔

انہوں نے کہا کہ جب مدرسہ بورڈ آیا تو کہا گیا کہ ٹرسٹ بنائیے جب ٹرسٹ بنا تو اب نئے وقف قانون میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ جو بھی ٹرسٹ کے تحت ادارے یا جائیداد ہیں وہ وقف نہیں رہیں گے۔ اس طرح بہار کے تقریباً چار ہزار مدارس پر خطرہ منڈلا رہا ہے کہ وہ نئے قانون کے تحت وقف جائیداد سے خارج ہو جائیں گی۔