متنازعہ وقف ترمیمی قانون:سپریم کورٹ میں مرکز کا حلف نامہ،قانون پر روک نہ لگانے کی اپیل

مرکز  نے عدالت عظمیٰ میں داخل حلف نامہ میں دعویٰ کیا کہ مذہبی آزادی کے حق چھینے جانے کی بات غلط فہمی پر مبنی

نئی دہلی،25 اپریل :۔

متنازعہ وقف ترمیمی قانون کے آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر آج جمعہ کو  مرکزی حکومت نے  سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کیا ہے۔ یہ حلف نامہ وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کے جواز کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کو خارج کرنے  کی اپیل کرتا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ عدالت قانون کا جائزہ لے سکتی ہے، لیکن صرف کچھ بنیادوں پر جیسے کہ قانون بنانے کا اختیار کس کے پاس ہے اور کیا اس سے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ حکومت نے یہ بھی کہا کہ درخواستیں اس غلط فہمی پر مبنی تھیں کہ ترامیم سے مذہبی آزادی کا بنیادی حق چھین لیا گیا ہے۔ حکومت نے عدالت سے کہا کہ وہ اس معاملے پر اپنا حتمی فیصلہ دے اور کوئی پابندی نہ لگائے۔

مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں داخل حلف نامہ میں دعویٰ کیا کہ  وقف ایکٹ میں ترامیم پارلیمانی پینل کے مکمل مطالعہ کے بعد لائی گئی ہیں۔ حکومت نے کہا کہ وقف املاک کا غلط استعمال کرتے ہوئے نجی اور سرکاری املاک پر قبضہ کیا گیا ہے۔ حکومت کے مطابق، مغل دور میں، آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد، کل 18,29,163.896 ایکڑ وقف جائیدادیں بنائی گئیں۔

حکومت نے حلف نامے میں کہا کہ جو بات چونکانے والی ہے وہ یہ ہے کہ 2013 کے بعد وقف اراضی میں 20,92,072.536 ایکڑ کا اضافہ ہوا ہے۔ مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ  میں داخل حلف نامہ میں یہ بھی  دعویٰ کیاکہ مقننہ کے ذریعہ بنائے گئے قانون کو تبدیل کرنا درست نہیں ہے۔

حلف نامے میں کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ نے اپنے دائرہ اختیار میں کام کیا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ وقف جیسے مذہبی ٹرسٹ کا صحیح طریقے سے انتظام کیا جائے۔ حکومت نے کہا کہ بغیر سوچے سمجھے پابندی لگانا درست نہیں کیونکہ قانون کی صداقت پر شک نہیں کیا جا سکتا۔

حکومت نے مزید کہا کہ وقف ایکٹ کے جواز کو چیلنج کرنے کی درخواست گزاروں کی کوششیں عدالتی نظرثانی کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہیں۔ حکومت نے کہا کہ عدالت کسی بھی قانون کا جائزہ صرف اس کے قوانین بنانے اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی بنیاد پر کرے۔ حکومت نے یہ بھی کہا کہ درخواستیں اس غلط فہمی پر مبنی تھیں کہ ترامیم سے مذہبی آزادی کا بنیادی حق چھین لیا گیا ہے۔