متنازعہ وقف ترمیمی قانون:دائیں بازو کی تنظیموں کا سپریم کورٹ کیخلاف نازیبا تبصرہ

سوشل میڈیا پر عدالت عظمیٰ کے خلاف مہم چلائی گئی اور نازیبا تبصرہ کرتے ہوئے سپریم کوٹھا قرار دیا

نئی دہلی ،18 اپریل :۔

متنازعہ وقف ترمیمی قانون کے خلاف سپریم کورٹ میں سماعت جاری ہے۔ گزشتہ دو دنوں کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے مسلم تنظیموں کی جانب سے وقف ترمیمی قانون کو چیلنج کرنے والی درجنوں عرضیوں پر سماعت  کرتے ہوئے مثبت اشارے کئےاور قانون کے متعدد دفعات پر سوال اٹھائے۔وقف بائی یوزر اور بورڈ میں غیر مسلموں کی شمولیت کے شرائط پر سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت سے سخت سوال کئے ہیں ۔جس پر مرکزی حکومت کی جانب سے ایک ہفتے میں جواب طلب کیا ہے۔ دریں اثنا سپریم کورٹ کے حالیہ تبصرہ پر دائیں بازو کی شدت پسند تنظیموں نے سپریم کورٹ پر نازیبا تبصرہ شروع کر دیاہے یہی نہیں بلکہ سوشل میڈیا ایکس پر سپریم کورٹ کو سپریم کوٹھا قرار دیا جا رہا ہے اور باقاعدہ ٹرینڈ کرایا گیا اور بند کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

در اصل سپریم کورٹ کے وقف ترمیمی قانون پر سماعت کے دوران متعد شقوں پر سوال اٹھائے جانے پر نائب صدر جگدیپ دھنکھڑ نے عدلیہ پر سوال کھڑے کئے۔ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ    وہ ‘سپر  سنسد’ بن کر قانون نہیں بنا سکتی، یہ پارلیمنٹ کا کام ہے جو عوام کو جوابدہ ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ صدر جمہوریہ کو حکم نہیں دے سکتی۔ حال ہی میں، وقف ترمیمی ایکٹ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور ہونے اور صدر کے دستخط کے بعد ایک قانون بن گیا۔ اب اس کے خلاف کئی عرضیاں سپریم کورٹ پہنچ چکی ہیں جس پر سماعت جاری  ہے، قانون کی کئی دفعات کو اگلی سماعت تک روک دیا گیا ہے۔ حکومت کو سپریم کورٹ میں کئی سوالوں کے جواب دینے ہیں۔نائب صدر جمہوریہ کے بیان کے بعد بی جے پی سمیت دائیں بازو کی تنظیموں کی جانب سے سپریم کورٹ کے خلاف محاذ کھول دیا گیا ہے اور سپریم کورٹ کو منہدم کرنے اور ختم کرنے کے مطالبے شروع ہو گئے ہیں ۔اور سپریم کورٹ کو شریعت کورٹ آف انڈیا کہہ کر متنازعہ تبصرے کئے جا رہے ہیں۔

کورٹ میں مساجد پر مندر ہونے کے دعویے کی عرضیاں دینے والے وشنو شنکر جین نے بھی سوال اٹھایا ہے اور پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ جب ایک فریق سپریم کورٹ جاتا ہے تو اس کی عرضی کو فوراً قبول کر لیا جاتا ہے اور عبوری راحت کی بات بھی کی جاتی ہے، جب کہ دوسرے فریق پر یہ قانون لاگو نہیں ہوتا۔

انہوں نے سپریم کورٹ پر تعصب کرنے کا الزام عائد کیا اور دعویٰ کیا کہ جب ہم نے وقف بورڈ کے تعلق سے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی تو عدالت نے ہم سے پوچھا کہ ہم براہ راست سپریم کورٹ کیوں آئے اور ہمیں ہائی کورٹ جانے کا مشورہ دیا، اور ہمیں کوئی عبوری راحت نہیں ملی، جب کہ مختلف ہائی کورٹس میں 140 سے زیادہ عرضیاں داخل کی گئی ہیں۔ اب یہ کیا معیار ہے کہ کوئی دوسرا فریق سپریم کورٹ آئے اور نہ صرف سنا جائے بلکہ عبوری حکم نامے سے متعلق باتیں بھی کہی جائیں۔ پچھلے 13 سالوں سے – ہندو مندروں کے حصول سے متعلق 4 ریاستوں کے ہندو انڈومنٹ ایکٹ کے معاملات سپریم کورٹ میں زیر سماعت تھے اور حال ہی میں سپریم کورٹ نے کہا کہ ان مقدمات کی ہائی کورٹ میں سماعت کی جائے اور کہا کہ ہم (سپریم کورٹ) ایسے مقدمات کی سماعت کیوں کریں؟

متعدد صارفین نے اعتراض کرتے ہوئے سپریم کورٹ کو اکثریت مخالف قرار دیا۔ایک صارف نے لکھا کہ سپریم کورٹ اکثریتی ہندو مخالف ہو گئی ہے۔ سپریم کورٹ کا اثر صرف ہندوؤں پر ہی کیوں؟ اس ملک کی اکثریت پوچھتی ہے…؟؟؟بعض صارفین نے سپریم کورٹ میں وقف ترمیمی قانون کے خلاف جرح کرنے والے وکیلوں کو غدار قرار دیا ہے، ابھیشیک منو سنگھوی اور کپل سبل اس میں سر فہرست ہیں۔