متنازعہ وقف ایکٹ پر سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ،عبوری حکم سے معمولی راحت
ضلع کلکٹر کو وقف جائیداد کے تعین کے فیصلے کا اختیار دینے پر روک لگا دی ،واقف کیلئے پانچ سال تک پریکٹیکل مسلمان ہونے کی شرط پر بھی پابندی عائد، مرکزی وقف کونسل میں 4 سے زیادہ غیر مسلم ارکان اورریاستی وقف بورڈ میں 3 سے زیادہ غیر مسلم ارکان نہیں ہوں گے

دعوت ویب ڈیسک
نئی دہلی،15 ستمبر:۔
متنازعہ وقف ایکٹ کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر آج سپریم کورٹ نے بڑا فیصلہ دیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے پورے قانون پر روک لگانے سے انکار کر دیا ہے لیکن متعدد قابل اعتراض نکات پر روک لگادی ہے۔ جس سے اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ عدالت کے عبوری حکم سے مسلم فریق کو معمولی راحت ضرور ملی ہے ۔
رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس بی آر گوئی نے واضح کیا کہ اس پورے قانون پر پابندی لگانے کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ اس سے قبل 22 مئی کو تین دن کی مسلسل سماعت کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ گزشتہ سماعت میں درخواست گزاروں نے وقف ایکٹ کو مسلمانوں کے حقوق کے خلاف قرار دیتے ہوئے اس پر عبوری روک لگانے کا مطالبہ کیا تھا۔ ساتھ ہی مرکزی حکومت نے اس قانون کو درست قرار دیتے ہوئے اس کے حق میں دلیل دی تھی۔ عدالت کے عبوری حکم سے مسلم فریق کو جزوی ریلیف ملا ہے۔
سپریم کورٹ نے آج تین اہم نکات پر خاص طور پر فیصلہ سنایا اور جس پر مسلم فریق کی جانب سے خاص طور پر شدید اعتراض کیا تھا۔
پہلا – کیا سماعت مکمل ہونے تک وقف املاک کو ڈی نوٹیفائی کیا جاسکتا ہے؟ دوسرا – وقف بورڈ کے ڈھانچے سے متعلق سوال، جس میں کہا گیا تھا کہ سابق ممبران کے علاوہ تمام ممبران مسلمان ہونے چاہئیں۔ تیسرا – کلکٹر کی تحقیقات کے دوران جائیداد کو وقف جائیداد نہ ماننے سے متعلق مسئلہ۔
سپریم کورٹ نے ان نکات پر واضح کیا کہ قانون کو روکنے کی کوئی وجہ نہیں ہے اور ان سوالات پر مزید تفصیلی سماعت میں تفصیل سے بات کی جائے گی۔
پہلا بڑا حکم یہ ہے کہ اب ضلع کلکٹر یہ فیصلہ نہیں کر سکے گا کہ کوئی جائیداد وقف ہے یا نہیں۔ عدالت کا خیال تھا کہ کلکٹر کو یہ حق دینے سے من مانی اور تنازعات پیدا ہوسکتے ہیں۔
دوسرا، سپریم کورٹ نے اس شق پر روک لگا دی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ صرف وہی شخص وقف کر سکتا ہے جو کم از کم پانچ سال سے مسلم مذہب کی پیروی کر رہا ہو۔ عدالت نے اسے امتیازی اور من مانی سمجھتے ہوئے اس پر عمل درآمد کرنے سے انکار کردیا۔
تیسرا، عدالت نے وقف بورڈ اور کونسل میں غیر مسلم ارکان کی تقرری پر بھی روک لگا دی ہے۔ سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ یہ نظام اس وقت تک معطل رہے گا جب تک حکومت اس پر کوئی ٹھوس اصول نہیں بناتی۔
اس کے علاوہ وقف بورڈ میں غیر مسلم ممبران کی نامزدگی کی اجازت دینے کی شق پر عدالت نے روک نہیں لگائی ۔ تاہم، عدالت نے کہا کہ جہاں تک ممکن ہو، بورڈ کا رکن مسلم شخص ہونا چاہیے۔ عدالت نے کہا کہ مرکزی وقف کونسل میں 4 سے زیادہ غیر مسلم ارکان نہیں ہوں گے، اور ریاستی وقف بورڈ میں 3 سے زیادہ غیر مسلم ارکان نہیں ہوں گے۔ عدالت نے رجسٹریشن کو لازمی قرار دینے کے پروویژن میں مداخلت نہیں کی اور کہا کہ یہ کوئی نئی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ یہ شرط 1995 اور 2013 کے سابقہ ایکٹ میں بھی موجود ہے۔ تاہم، عدالت نے رجسٹریشن کے لیے وقت کی حد میں توسیع کر دی ہے (جو فیصلہ اپ لوڈ ہونے کے بعد معلوم ہو گی۔)
عدالت عظمیٰ کی جانب سے عبوری حکم کے بعد معمولی راحت پرکانگریس کے ایم پی عمران پرتاپ گڑھی نے کہا، "یہ واقعی ایک اچھا فیصلہ ہے۔ سپریم کورٹ نے حکومت کی سازش اور ارادوں کو روک دیا ہے۔ جن لوگوں نے زمین عطیہ کی تھی، وہ ڈرتے تھے کہ حکومت ان کی زمین ہتھیانے کی کوشش کرے گی۔ یہ ان کے لیے راحت کی بات ہے… حکومت کیسے فیصلہ کرے گی کہ کون 5 سال سے مذہب کی پیروی کر رہا ہے؟ یہ ایمان کا معاملہ ہے… حکومت ان تمام باتوں کو مدنظر رکھے گی…” ہم لڑائی جاری رکھیں گے۔
وقف ایکٹ کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی داخل کرنے والوں میں اے آئی ایم آئی ایم سربراہ اسد الدین اویسی، عآپ کے امانت اللہ خان، جمعیۃ العلما ہند کے صدر ارشد مدنی، کیرالہ جمعیۃ العلماء، انجم قادری، طیب خان سلمانی، محمد شفیع، ٹی ایم سی ایم پی مہوا موئترا، انڈین یونین مسلم لیگ، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ، آر جے ڈی ایم پی منوج کمار جھا، ایس پی ایم پی ضیا الرحمٰن برق، بھارتیہ کمیونسٹ پارٹی اور ڈی ایم کے شامل ہیں۔