ماں… جو آج بھی دل کے آنگن میں زندہ ہے

 از قلم  : خبیب کاظمی

صبح اسکول جاتے ہوئے بیٹی ارویٰ کے ہاتھ میں ایک کاغذ نظر آیا، وہ اسے بار بار دیکھ رہی تھی۔ میں نے پوچھا، "بیٹا! آج کوئی ٹسٹ ہے کیا؟” وہ مسکرائی، بولی، "نہیں ابا، آج مدرز ڈے سیلیبریشن ہے۔ کچھ کہنا ہے ماں کے بارے میں۔” اندازہ ہوا کہ شاید کچھ نیٹ سے ڈھونڈ کر یاد کر رہی ہے۔ میں نے نرمی سے کہا، "مجھے کہتیں تو میں کچھ اچھا سا لکھ دیتا۔” بولی، "ابا! میرے نزدیک مدرز ڈے، فادرز ڈے کی کوئی خاص اہمیت نہیں۔ ہم مسلمان ہیں، اور ہمارے دین میں تو ماں باپ کے لیے ہر دن، ہر لمحہ، ان کی خدمت، ان کی محبت، ان کی قدر کا دن ہوتا ہے۔ہم تو  صرف وہ رسم نبھا رہے ہیں جو اسکول کی طرف سے ہمیں ہوم ورک کے طور پر ملا ہے۔ ہم ایک دن ماں کے لیے وقف کرکے سمجھ نہیں سکتے کہ ہم نے ان کا حق ادا کر دیا۔ دنیا صرف ایک دن مناتی ہے، اور ہم تو ہر دن، ماں کے قدموں میں جنت تلاش کرتے ہیں۔” اس کی یہ معصوم مگر پختہ باتیں سن کر میرا دل خوش ہو گیا اور دل کی گہرائیوں سے اپنے رب کا شکر ادا کیا،کیونکہ وہ لمحہ، وہ گفتگو میرے لیے دنیا کی سب سے قیمتی دولت تھی۔ یہی تو والدین کی اصل کمائی ہے کہ اولاد ان کی سوچ، ان کے دین، ان کی تہذیب کی آئینہ دار ہو۔

پیاری ارویٰ کی باتوں نے مجھے ایک لمحے میں اپنی ماں کی یادوں میں گم کر دیا۔

وہ چہرہ جو کبھی غصے میں بھی ہوتا تو اس میں محبت کی روشنی چمکتی، وہ ہاتھ جو سر پر رکھے جاتے تو دعاؤں کی ٹھنڈک دل تک اترتی، وہ زبان جو تھکن میں بھی میرے لیے دعا کے الفاظ دہراتی رہتی۔

میری امی… میرے بچپن کا سایہ، جوانی کی پناہ، تنہائیوں میں چراغ، اور میری ہر کامیابی کی اصل بنیاد۔وہ ہمیشہ میرے ساتھ رہیں ، جب میں قطر آیا، جب شادی ہوئی، جب بچے ہوئے۔ اور وہ دن کیسے بھول سکتا ہوں جب ماں باپ پہلی بار قطر آئے؛ جیسے زندگی کی خوشبو میرے دروازے پر اتر آئی ہو، جیسے دعاؤں کا قافلہ میرے آنگن میں اُتر آیا ہو۔ آج بھی ان کی ہنسی، ان کی باتیں، ان کے لمس کی گرمی… سب کچھ میرے دل کے نہاں خانوں میں گونجتا ہے۔

ماں… وہ ہستی جس کی گود دنیا کی سب سے محفوظ پناہ گاہ ہے، اور جس کے قدموں تلے جنت ہے۔یہ کوئی شاعری نہیں، بلکہ ہمارے پیارے نبی ﷺ کا سچا اور عظیم فرمان ہے۔ جب ایک شخص نے پوچھا: "یا رسول اللہ! میرے حسنِ سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟”  آپ ﷺ نے تین بار فرمایا: "تمہاری ماں۔” یہ تکرار نہیں، بلکہ ایک اعلان ہے – ماں کی عظمت کا، جو ہر رشتے، ہر تعلق، اور ہر مقام سے مقدم ہے۔

قرآن مجید بھی اسی پیغام کو مزید وسعت دیتا ہے۔ جہاں توحید کا حکم دیا، وہیں والدین کے ساتھ حسن سلوک کو پہلا اخلاقی فریضہ قرار دیا: "وَقَضىٰ رَبُّكَ أَلّا تَعبُدوا إِلّا إِيّاهُ وَبِالوالِدَينِ إِحسانًا” (اور تمہارے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو)  ( بنی اسرائیل)

اور اسی آیت میں وہ الفاظ آتے ہیں جو اسلامی اخلاقیات کی معراج ہیں:  "فَلا تَقُل لَهُما أُفٍّ وَلا تَنهَرهُما وَقُل لَهُما قَولًا كَريمًا”

(پس انہیں اُف تک نہ کہو، نہ جھڑکو، اور ان سے عزت و احترام سے بات کرو۔)

یہ الفاظ محض نصیحت نہیں، بلکہ والدین کے ساتھ دل سے جڑنے کا طریقہ بتاتے ہیں ،  نرمی، شائستگی، اور محبت سے لبریز سلوک۔

یہ دنیا میں بے غرضی اور بے لوثی کی سب سے عظیم مثال ہے۔ رب کریم نے سورہ لقمان میں فرمایا:  "وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا ۖ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَىٰ وَهْنٍ” (اور ہم نے انسان کو والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی، اس کی ماں نے اسے ضعف پر ضعف اٹھا کر جنا۔)  (سورہ لقمان)

یہ ایک ایسا جملہ ہے جو ماں کی صرف جسمانی مشقت کو نہیں، بلکہ اس کی ذہنی، جذباتی اور روحانی قربانیوں کو بھی اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے۔

جب ایک ماں اپنی نیند، آرام، خواہشات، حتیٰ کہ اپنی صحت قربان کرکے اولاد کو پالتی ہے، تو وہ صرف جنت کا دروازہ نہیں، بلکہ خود جنت کی ایک جھلک بن جاتی ہے۔

ماں چلی جاتی ہے، مگر اس کی یادیں، اس کی دعائیں، اس کی تربیت، اس کی محبت کبھی نہیں جاتی۔ وہ خوابوں میں آتی ہے، دل کی دھڑکنوں میں بسی رہتی ہے، زندگی کے ہر فیصلے میں شامل ہوتی ہے۔ اور ہم جیسے لوگ جن کی ماں اب اس دنیا میں نہیں، وہ جانتے ہیں کہ ماں کا رشتہ جسمانی جدائی سے نہیں ٹوٹتا۔ وہ صدقہ جاریہ بن کر، دعاؤں کے حصار میں، اعمال کی جھلک میں، کردار کے آئینے میں زندہ رہتی ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ماں کی روح مطمئن ہو، تو اپنی زندگی کو اُس کی دعاؤں کے لائق بنائیں۔

آج دنیا اسے "مدرز ڈے” کہتی ہے۔ میرے لیے یہ دن کوئی خاص رسم نہیں، کوئی خاص تہوار نہیں، بس ایک لمحہ ہے… ایک نرم، شفاف لمحہ… جس میں میں اپنی ماں کو یاد کر رہا ہوں۔ اور یہ یاد ہر دن میرے ساتھ رہتی ہے۔ آج بس قلم تھاما ہے، تاکہ چند لفظوں میں اس احساس کو قید کر سکوں، کہ: ماں! تم نہیں ہو، لیکن تمہاری دعاؤں کی چھاؤں آج بھی میرے سر پر ہے۔ تمہاری گود نہیں، لیکن تمہاری محبت کی گرمی آج بھی میری روح کو سہارا دیتی ہے۔ تم دنیا سے چلی گئیں، لیکن دل سے کبھی جدا نہ ہو سکیں۔

ماں… صرف ایک لفظ نہیں، یہ ایک مکمل کائنات ہے۔ اور یہ کائنات نظروں سے اوجھل ہو سکتی ہے، دل سے کبھی نہیں۔ ماں کی محبت، دعاؤں کی صورت میں آسمان سے نازل ہوتی رہتی ہے، اور ہمیں تھامتی رہتی ہے… ہر دن، ہر لمحہ۔

منور رانا مرحوم کے اس شعر پر میں اپنے قلم کو روکنا چاہتا ہوں۔

میں نے کل شب چاہتوں کی سب کتابیں پھاڑ دیں۔

صرف ایک کاغذ پہ لکھا لفظ "ماں” رہنے دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قطر

[email protected]