مانگنے کا طریقہ
اس خاتون نے کہا مجھے مانگنے کا طریقہ آتا ہے ۔ اور لوگوں کو دینے کا سلیقہ۔

محمودہ بانو (جبل پور)
رمضان کے روزوں کے آخری دور یعنی طاق رات چل رہے تھے میں قران پڑھ کر لیٹی ہی تھی کہ اچانک کسی نے دروازے پر بیل ڈور بجایا صبح کے 10 بجے تھے میں اٹھی اور میں نے دروازہ کھولا ۔ دیکھا تو سامنے ایک خاتون جو تقریبا 34۔ 35 کے عمر کے لگ بھگ میرے سامنے کھڑی تھی۔ میں نے غور کیا تو جانی پہچانی سی لگ رہی تھی۔ اسنے مجھے دیکھا اور سلام کیا میں نے جواب دیا اور پوچھا ۔ اور بی بی سب ٹھیک ہے کیسے آنا ہوا اس وقت۔
وہ بڑی غمزدہ لگ رہی تھی مجھے دیکھ کر بڑے روندھی سی اواز میں بولنے لگی باجی میں بہت پریشان ہوں۔ میری کچھ مدد کر دیں۔ میں نے کہا بی بی آپ تو وہی ہیں نا جو پاس والی بستی میں رہتی ہیں۔ میں نے آپ کو دیکھا ہے اس راستے پر آتے جاتے ۔
اس نے کہا ہاں باجی میں اکثر اسی راستے سے نکلتی ہوں۔ پھر میں نے اس سے کہا کیا بات ہے آپ تو پہلے بڑی اچھی زندگی گزار رہی تھی پھر کیا ہوا۔ اس نے کہا ۔ باجی میں آپ کے گھر میں بیٹھ جاؤں ۔چونکہ میں اسے پہچانتی تھی اس لیے میں نے اس خاتون کو گھر میں انے دیا اور کرسی پاس رکھ دی وہ خاتون اس پر بیٹھ گئی بیٹھ کر جیسے چین کی سانس لی ہو میں نے کہا ہاں اب بتائیے۔
جیسے ہی اس خاتون نے سنانا شروع کیا وہ اپنا روداد سنا رہی تھی میری تو جیسی سانس اٹک گئی اور میں دل تھام کر اس کے چہرے کو تکے جا رہی تھی اور میرا دل بھرا جا رہا تھا کہ کیا کوئی اتنا بھی مجبور ہو سکتا ہے۔
اس خاتون نے بتایا باجی میں اچھے گھر سے ہوں میرے پانچ بچے ہیں میرے شوہر اور میں سلائی یعنی ٹیلرنگ کا کام کرتے تھے الحمدللہ گھر اچھا چل رہا تھا اللہ کی بہت برکت تھی دو وقت کا کھانا کپڑا اور رہنے کے لیے گھر اور کیا چاہیے تھا زندگی میں۔ لیکن اب۔۔۔۔۔۔۔
یہ کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور اپنی ساس نندوں کا بھی شکوہ گھر کے حالات کا تذکرہ کرنے لگی اس نے بتایا کہ اب وہ حالات ہیں کہ روزوں میں بھی میرے بچے دو روٹی کے لیے تڑپ رہے ہیں میں مانگ کر گزارا کر رہی ہوں میرے بچے اور میں روزہ رکھتے ہیں لیکن کبھی افطاری تک میسر نہیں ہوتی۔ نرما صابن نہ ہونے کی وجہ سے گندے کپڑے پر گزارا ہو رہا ہے۔
میرا تجسس بڑھتا جا رہا تھا یہ جاننے کے لیے کہ ایسے حالات کیوں پڑ گئے ایسی کیا وجہ تھی کہ اتنی معذوریت کی زندگی گزارنی پڑ رہی۔
اگے اس خاتون نے بتایا کہ میری ساس نندوں نے کہا کہ کب تک سلائی کرو گی اور اتنی کم کمائی میں کس کا گزارا ہوتا ہے ایک آٹو رکشہ خرید لو اس میں اچھی کمائی ہے۔ اور میں نے سودی لون اٹھا لیا اور اس لون میں آٹو رکشہ فائننس کروا لیا سوچا رکشے کی اچھی کمائی ہوگی اور دونوں لون ادا ہو جائیں گے لیکن قسمت کو تو کچھ اور ہی منظور تھا لون اتنا چڑھ گیا کہ گھر تک بیچنا پڑا اور ابھی تک اٹو رکشہ کا فائننس چل رہا ہے ۔جو کہ رکشے کی کمائی اسی میں چلی جاتی ہے۔ اور میں پوری سلائی بھی نہیں جانتی وہ تو اپنے شوہر کے ساتھ ہاتھ بٹا دیا کرتی تھی۔ اب ایسے حالات میں۔ میں کیا کرتی میں نے یہ راستہ اپنایا جو کہ میں نہیں چاہتی تھی۔ رمضان کے دنوں میں لوگ مدد کرتے ہیں اسی لیے میں کچھ گھروں سے مانگ کر گزارا کر رہی ہوں۔ یہ سن کر مجھے اس پر بڑا رحم آیا اور مجھ سے جو بھی بن پڑا میں نے اللہ کی راہ میں اس کی مدد کی۔ ساتھ ہی ایک سمجھائش بھی دی اور کہا اب سے آگے سودی لون کبھی مت اٹھانا اس سے انسان تباہ و برباد ہو جاتا ہے اور قران کی وہ آیت بھی سنائی جو اللہ تعالی نے فرمایا کہ اللہ تعالی سود کا مٹھ مار دیتا ہے۔ اس میں کبھی برکت نہیں ہوتی۔ اس خاتون نے وعدہ کیا کہ میں دوبارہ کبھی سودی لون نا اٹھاؤں گی۔
رمضان ختم ہوا عید آگئی عید میں ہم سب ایک دوسرے کو خوشیاں بانٹ رہے تھے لیکن نامعلوم میرے ذہن میں وہ خاتونِ کیوں گھر کر گئی تھی بار بار ذہن میں یہ بات آرہی تھی کہ جانے اس کو یہ عید کی خوشیاں میسر ہوئی ہیں یا نہیں۔ کیسے حالات ہوں گے اس کے۔ اور اگے اب وہ کیسے اپنی زندگی گزار پائے گی ۔ میں یہ سب سوچ رہی تھی دل میں خیال آیا کہ میں اس کے گھر جا کر اس سے ملوں ۔ دوسرے دن میں نے اس کے گھر کا رخ کیا جو کہ وہ دوسری بستی میں کرائے کے مکان میں رہتی تھی۔ میں نے پتہ لگایا اور اس کے گھر پہنچ گئ جب وہاں پہنچی تو دیکھا اس کے گھر میں بڑی گہما گہمی تھی شاید کچھ لوگ آئے ہوئے تھے لان میں تقریبا 20 کلو تک کے برتن میں کچھ بن رہا تھا میں کچھ سمجھی نہیں آخر ماجرہ کیا ہے بہرحال میں نے سلام کیا اور وہ خاتون جو کہ کچھ کاٹ رہی تھی مجھے دیکھ کر شاید جھینپ گئی تھی اسنے جواب دے کر مجھے ایک طرف بیٹھنے کا اشارہ کیا میں وہیں پر دری میں بیٹھ گئی میں نے پوچھا بی بی خیریت آج کچھ اسپیشل ہے کیا اس نے بتایا باجی رشتہ داروں کو بلایا ہے دعوت پر۔ میں۔ بھنچکی سی رہ گئی کہ کل تک تو اس خاتون کے پاس کچھ بھی نہیں تھا اگر مانگ کر کچھ اکٹھا بھی کیا ہوگا تو کیا اس لیے کہ رشتہ داروں کو دعوت کھلائے ۔ کیا اس کے حالات اب بہتر ہو گئے ۔ آخر میں نے خاتون سے پوچھ ہی لیا بی بی ماشاءاللہ آپ کے تو حالات بہتر ہو گئے ۔ اس نے بتایا کہاں باجی ۔ وہ تو رشتہ داروں میں عزت بنی رہے اس لیے انہیں دعوت پر بلا لیتی ہوں ۔ میں نے کہا کہ کیا آپ کے رشتہ دار اپ کے حالات سے واقف نہیں ہے۔ اور پہلے تو اپ اپنے حالات کو بہتر کر لیں پھر رشتہ داروں کو دعوت دیں ۔ اس نے کہا باجی حالات تو ایسے ہی رہیں گے پھر میں نے حیرت سے کہا اور آپ کا گزارا ؟ کیا اسی طرح مانگ کر ؟ اور ابھی تک تو رمضان کے دن تھے لوگوں نے اپ کی مدد کر دی آگے کیا ہوگا ۔ اب لوگ کیسے آپ کی مدد کریں گے ۔
پھر جو اس خاتون نے جواب دیا تو سن کر میرے تو ہوش اڑ گئے اور میں کہیں نہ کہیں خود کو ٹھگا سا محسوس کرنے لگی۔
اس خاتون نے کہا مجھے مانگنے کا طریقہ آتا ہے ۔ اور لوگوں کو دینے کا سلیقہ۔