مالیگاؤں بم دھماکہ کےملزمین کی رہائی ناقابل فہم،مایوس کن

ویلفئیر پارٹی آف انڈیا کے قومی جنرل سکریٹری ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے فیصلے کو مظلوموں کے ساتھ بد ترین نا انصافی قرار دیا

دعوت ویب ڈیسک

نئی دہلی، یکم اگست :۔

مالیگاؤں بم دھماکہ کیس  میں این آئی اے کی خصوصی عدالت نے جس طرح ساتوں ہندوتو نواز ملزمین کو بری کر دیاہے اس نے تمام انصاف پسندوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے ۔مختلف ملی اور سیاسی تنظیموں نے اس پر حیرت اور استعجاب کا اظہار کیا ہے ۔ دریں اثنا ویلفیئر پارٹی آف انڈیا نے بھی 2008 مالیگاؤں بم دھماکہ کیس کے تمام ساتوں ملزمان کی رہائی  پر شدید مایوسی اور غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔

ویلفیئر پارٹی کے قومی جنرل سکریٹری ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے میڈیا کے نام جاری ایک ریلیز میں  کہا کہ سابق بی جے پی رکن پارلیمنٹ پرگیہ سنگھ ٹھاکر اور لیفٹیننٹ کرنل پرساد پروہت کو حکمران جماعت سے وابستگی اور استغاثہ کی جانب سے فراہم کردہ ناکافی ثبوتوں کی بنیاد پر بری کیا گیا۔ انہوں نے اس فیصلے کو اُن مظلوموں کے ساتھ بدترین ناانصافی قرار دیا جنہوں نے اپنی جانیں کھو دیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس معاملے کی ازسرنو مکمل اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کرائی جائیں۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ عدالت نے تمام سات ملزمان کو بری کر دیا، جن پر ایک مسلم اکثریتی علاقے میں ہولناک بم دھماکے کا الزام تھا، جو تقریباً 17 سال قبل مہاراشٹر میں پیش آیا تھا۔ عدالت نے استغاثہ کی جانب سے قابلِ اعتماد ثبوت فراہم نہ کرنے کو بنیاد بنایا۔ اپنے حکم میں عدالت کا یہ مشاہدہ انتہائی معنی خیز ہے کہ “ تفتیش کرنے والی سابقہ ایجنسی مہاراشٹرا انسداد دہشت گردی دستہ( اے ٹی ایس ) اور موجودہ ایجنسی این آئی اے کی تفتیش میں بے انتہا تضاد ہے“

انہوں نے کہا یہ کیس اسی وقت کمزور ہوگیا تھا جب اس کیس کی تفتیش کرنے والےافسر ہیمنت کرکرے کو بمبئی دہشت گردانہ حملہ میں قتل کردیا گیا تھا، مزید برآن جب اسے اے ٹی ایس سے لے کر این ائی اے کوسونپا گیا اور  جب مشہور وکیل روہنی سالیان کو اس کیس سے الگ ہونے پر مجبور کیا گیا تب ہی سے یہ پورا مقدمہ شک کے گھیرے میں آگیا تھا۔

ڈاکٹر الیاس نے کہا کہ عدلیہ کو آزاد اور منصف ہونا چاہیے اور انصاف کی فراہمی میں متاثرین کے حقوق کو ترجیح دی جانی چاہیے، نہ کہ ملزمان کو محض سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر آزاد چھوڑ دیا جائے، خاص طور پر ایسے حساس معاملے میں جو ملک میں دائیں بازو کی ہندو قوم پرست تنظیموں کی مبینہ شدت پسندی کا پہلا بڑا مقدمہ تھا۔انہوں نے کہا کہ فیصلے کا وقت اور نوعیت، عدلیہ پر سیاسی اثر و رسوخ کے خدشات کو جنم دیتا ہے، جیسا کہ بالقیس بانو جیسے مقدمات میں بھی دیکھا گیا۔

ڈاکٹر الیاس نے عدلیہ سے اپیل کی کہ وہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے پرعزم رہے، اور ان مجرموں کو سزا دے جنہوں نے خوفناک جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ عدالت عظمی ازخود اس فیصلے سے پیدا ہونے والے خدشات کا نوٹس لے، متاثرین اور ان کے اہل خانہ کے حقوق کو مقدم رکھے اور یہ یقینی بنائے کہ ملک میں انصاف کا بول بالا ہو۔