ماب لنچنگ نہیں اسے’دہشت گردانہ کارروائی‘ کہیئے

،پولیس قاتلوں کے سہولت کار کا کردار ادا کر رہی ہے،قتل کی یہ کارروائی بغیر کسی اتفاقی یا عمومی وجہ کے ہوتی ہے، بلکہ اسے واضح ہدف کے تحت کیا جاتا ہے۔ ملک کا مسلمان اسی ہدف کا شکار ہو رہا ہے

مشتاق عامر

ملک میں مسلمانوں کے خلاف ماب لنچنگ معمول کا حصہ بنتی جا رہی ہے ۔ ہجومی تشدد کو اب ’ نارملائز ‘ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ یعنی یہ کہ اس طرح کے واقعات اپنی اہمیت کھو دیں اور سب کچھ معمول کے مطابق لگنے لگے ۔حقیقت میں ایسا ہو بھی رہا ہے ۔ ملک میں ماب لنچنگ کے چھوٹے بڑے واقعات آئے دن رونما ہو تے رہتے ہیں لیکن یہ معمول کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ یہ ایک خطر ناک رجحان ہے جس کی گرفت سے مسلمانوں کو نکلنا ہو گا ۔ ماب لنچنگ جس خطرناک رخ پر چل پڑی ہے اسے نئے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے ۔اس کے پس پردہ کار فرما  منصوبے اور ذہنیت کو سمجھنا ضروری ہے،  جسے بہت منظم طریقے سے انجام دیا جا رہا ہے ۔سب سے پہلے ’ ماب لنچنگ ‘ کی اصطلاح سے گریز کرنا چاہئے۔ اس اصطلاح نے اپنی معنویت کھو دی ہے ۔آج کی ماب لنچگ معنوی اعتبار سے کافی آگے نکل چکی ہے ۔اب تک یہ ہوتا رہا ہے کہ میڈیا نے جو لفظ یا اصطلاح  ہمارے منھ میں ڈال دیا  وہی ہماری گفتگو ، تحریر و تقریر کا حصہ بن جاتے ہیں ۔ہم اس کے پوشیدہ مفہوم اور اثرات پر غور نہیں کرتے۔جبکہ ماب لنچنگ اب’  ٹارگیٹ کلنگ ‘ کی شکل اختیار کر چکی ہے ۔اسے بڑے  منظم اور منصوبہ بند طریقے سے انجام دیا جا رہا ہے ۔

ٹارگیٹ کلنگ (Target Killing ایک ایسی اصطلاح ہے جو اس صورت میں استعمال( ہوتی ہے جب کسی شخص یا افراد کے گروہ کو منصوبہ بندی کے تحت خاص طور پر قتل کیا جائے۔ اس کا مقصد عام طور پر سیاسی، مذہبی، نسلی، یا ذاتی دشمنی پر مبنی ہوتا ہے۔

ٹارگیٹ کلنگ ایک ایسی مجرمانہ کارروائی ہے جس میں کسی مخصوص فرد یا گروہ کو پیشگی منصوبہ بندی کے تحت نشانہ بنا کر قتل کر دیا جائے ، تاکہ مطلوبہ مقاصد حاصل کیے جا سکیں۔

قتل کی یہ کارروائی بغیر کسی اتفاقی یا عمومی وجہ کے ہوتی ہے، بلکہ اسے واضح ہدف کے تحت کیا جاتا ہے۔ ملک کا مسلمان اسی ہدف کا شکار ہو رہا ہے ۔

ماب لنچنگ کی زیادہ تر واردات میں آر ایس ایس کی سر پرستی والے گؤ رکچھک دل کے دہشت گرد  شامل ہوتے ہیں ۔ گؤ رکچھک دل کو غیر اعلانیہ طور سے حکومت کی طرف سے کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے ۔ تشدد کی کارروائیوں میں ان مسلم  تاجروں ، کسانوں اور عام مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے جو بڑے جانوروں کا کاروبار کرتے ہیں یا جو ان کے نشانے پر ہوتے ہیں ۔ عید الاضحیٰ کے قریب آتے ہی اس طرح کی پرتشدد کارروائیوں میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔ گزشتہ 24 مئی کو علی گڑھ  میں لائسنس یافتہ گوشت کے تاجروں کو جس سفاکی کے ساتھ تشدد کا نشانہ بنایا گیا ،اس سے مذہبی منافرت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ یہ صرف غیر قانونی وصولی یا روایتی غنڈہ گردی کا معاملہ نہیں ہے ، بلکہ یہ ایک ایسا  دہشت گردانہ حملہ ہے جسے پولیس کی پشت پناہی حاصل تھی۔وائرل ویڈیو کو دیکھنے سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ چاروں  تاجروں کو قتل کے منصوبے کے تحت تشدد کا نشانہ بنایا گیا  تھا ۔اس طرح کے معاملات میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ  ایسی کاروائیاں سیاسی، مذہبی یا فرقہ وارانہ بنیادوں پر کی جاتی ہیں۔گؤ رکچھا کے نام پر جو دہشت گردی کی جاتی اس میں اصل منشا قتل کرنے کی ہوتی ہے ۔ ٹارگیٹ کلنگ میں اکثر پیشہ ور قاتل یا شدت پسند گروہ شامل ہوتے ہیں۔ جیسا کہ علی گڑھ کے واقعے میں یہ بات کھل کر سامنے آ رہی ہے کہ اس کی منصوبہ بندی کافی پہلے سے کی جا رہی تھی ۔ معاملے کا تشویش ناک پہلو یہ بھی ہے کہ دہشت گردی کا شکار ہونے والے چاروں تاجروں کے خلاف پولیس نے مقدمہ درج کر لیا ہے ۔ یعنی اس حملے میں اگر وہ موت سے بچ گئے ہیں تو اب ان کو حکومت کی طرف سے  قائم کئے گئے مقدمات کا سامنا ہے ۔ دہشت گردی کا شکار ہونے والے تاجر لائسنس یافتہ ہیں۔

یہ تاجر فیکٹری سے گوشت خرید کر لے جا رہے تھے ۔اس کی رسید ان کے پاس موجود تھی ۔عمو ماً اس طرح کے تشدد کے ویڈیو دانستہ طور سے بنائے جاتے ہیں تاکہ مسلمانوں میں خوف اور عدم تحفظ کا احساس پیدا کیا جا سکے۔ ویڈیو کے ذریعے تشدد کے طور طریقوں کی تشہیر کی جاتی ہے۔یہ ایک پیغام ہوتا ہے جسے دوسرے مقام کے لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف تشدد پر اکسانے کا کام کیا جاتا ہے ۔ظاہر ہے یہ سب منصوبہ بند طریقے سے ہی ممکن ہو سکتا ہے ۔ ہجومی قتل کے پختہ ثبوت ہونے کے با جود پولیس دہشت گردوں کے خلاف کوئی کار گر کارروائی نہیں کرتی۔ان پر ایسی دفعات کے تحت مقدمے درج کئے جاتے ہیں جس سےضمانت ملنے میں آسانی ہو۔اگر یہ جیل میں ہوتے ہیں تو انہیں عام قیدیوں کے مقابلے خصوصی مراعات حاصل ہوتی ہیں ۔  جب  قاتل ضمانتوں پر جیل سے باہر آتے ہیں تو ان کا ہیرو کا طرح استقبال  کیا جاتا ہے۔ گزشتہ  11 مئی کو بہار  کے چھپرا شہر میں چوبیس سالہ نوجوان ذاکر قریشی کو  قاتلوں کے ہجوم نے پیٹ پیٹ کر مار ڈالا ۔ اس واقعے میں ذاکر قریشی کے بڑے بھائی نہال قریشی شدید طور پر زخمی ہوئے  ۔ہمیں اب ماب لنچگ کے بارے میں اپنا رسمی رویہ بدلنا ہوگا ۔ اس منصوبے میں کارفرما سفاک مسلم دشمنی کی پرتوں کو جاننا ہوگا ۔ ہجومی تشدد ایک طرح سے نسل کشی کا چھوٹا روپ ہے ۔اس کی شدت کا اندازہ اس لیے نہیں ہو پا تا ہے کہ ابھی اسے چھوٹے پیمانے پر رکھا گیا ہے ۔اس طرح کے واقعات کو فی الحال ’ نارملائز ‘ کیا جا رہا ہے تاکہ مسلمان اس قسم کے تشدد کے  عادی ہو جائیں اور انہیں کچھ بھی ’ ایب نارمل ‘ نہ لگے۔  اس طرح کی  ٹارگیٹ کلنگ مسلمانوں کی  روز مرہ کی زندگی کا حصہ بن جائے ۔یوں سمجھئے کہ ٹارگیٹ کلنگ نسل کشی کا پیش خیمہ ہے ۔بیشتر معاملوں میں پولیس کا کردار مشکوک بعض اوقات سہولت کاروں کا ہوتا ہے ۔ ایسے موقعوں پر پولیس قاتلوں کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے۔علی گڑھ میں تاجروں پر جو سفاکانہ حملہ ہوا اس میں بھی پولیس خاموش تماشائی بنی رہی ۔بلکہ اس نے حملے کا شکار تاجروں کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے ۔

اگرچہ اس حملے میں شدید زخمی ہونے والےعقیل نام کے ایک تاجر کے والد سلیم خان کی تحریر پر پولیس نے مقدمہ درج کر لیا ہے اور کچھ گرفتاریاں بھی ہوئی ہیں  ، تاہم ماضی میں اس طرح کی پولیس کارروائیوں کا حشر کیا ہوا ،  یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے ۔موجودہ سنگین صورت حال کی از سر نو تفہیم کی ضرورت ہے ۔ پہلے یہ کہ ماب لنچگ ایک منصوبہ بند ٹارگیٹ کلنگ ہے ۔ دوسرا  یہ کہ ایک دہشت گردانہ عمل ہے ۔تیسرا یہ کہ اس میں پولیس کاکردار قاتلوں کے سہولت کار کا ہوتا ہے ۔مجموعی طور پر ایسے سفاکانہ واقعات منظم نسل کشی کے بڑے خطرے کی نشاندہی کرتے ہیں ، جس کا ادراک وقت رہتے ہو جانا چاہئے۔