
مائیکروسافٹ، گوگل اور امیزون غزہ نسل کشی میں ملوث،اقوام متحدہ کی رپورٹ میں انکشاف
متعدد کمپنیاں اسرائیل کے آبادکاری-استعماری منصوبے کو برقرار رکھنے اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں، نسل پرستی اور نسل کشی میں حصہ لے رہی ہیں
اقوام متحدہ ،03 جولائی :۔
غزہ میں ایک لمبے عرصے سے فلسطینیوں کی نسل کشی کا سلسلہ جاری ہے ۔ یوں تو واضح طور پر اسرائیل اس ظلم و بربریت میں پیش پیش ہے لیکن اسرائیل کے ساتھ دیگر ممالک کے علاوہ معروف بین الاقوامی کمپنیاں بھی فلسطینیوں کی نسل کشی میں برابر شریک ہیں ۔گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کی ایک نئی رپورٹ میں کئی مشہور بین الاقوامی کمپنیوں پر اسرائیل کے فلسطینی علاقوں پر قبضے اور فوجی کارروائیوں میں مدد کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ فرانسیسکا البانیز، جو مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق کی صورتحال کی نگرانی کرتی ہیں، نے اپنی رپورٹ میں درجنوں امریکی اور عالمی کمپنیوں کو فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے غیر قانونی قبضے اور فوجی کارروائیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا ہے۔ یہ رپورٹ، جس کا عنوان "قبضے کی معیشت سے نسل کشی کی معیشت تک” ہے، جنیوا میں پیش کی جائے گی۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق البانیز کا کہنا ہے کہ مائیکروسافٹ، گوگل اور امیزون جیسی کئی کمپنیاں اسرائیل کے آبادکاری-استعماری منصوبے کو برقرار رکھنے اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں، نسل پرستی اور نسل کشی میں حصہ لے رہی ہیں۔ انہوں نے اسے "مشترکہ مجرمانہ کاروبار” قرار دیا اور کہا کہ "نسلی سرمایہ داری کے معاشی انجن” نے قبضے کو "نسل کشی کی معیشت” میں بدل دیا ہے۔ رپورٹ میں ۴۸ کمپنیوں کی نشاندہی کی گئی ہے اور ایک ہزار سے زیادہ اداروں کا ایک وسیع ڈیٹا بیس بھی مرتب کیا گیا ہے۔ یہ ادارے خود ارادیت کی نفی، زمین کے ناجائز قبضے، نسل پرستی، اور جبری بے دخلی، امتیازی سلوک، لوٹ مار، بلا جواز تباہی، اور بھوک جیسے متعدد انسانی حقوق کے جرائم کو ممکن بناتے ہیں۔ البانیز نے زور دیا کہ کارپوریٹ اداروں کا قبضے کے کسی بھی پہلو میں ملوث ہونا بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے جڑا ہوا ہے۔
رپورٹ میں خاص طور پر مائیکروسافٹ، الفابیٹ (گوگل کی پیرنٹ کمپنی)، امیزون اور پیلانٹیر جیسی امریکی اور اسرائیلی ٹیکنالوجی کمپنیوں کا نام لیا گیا ہے۔ ان پر فوجی ہارڈویئر، نگرانی کی ٹیکنالوجی اور بنیادی ڈھانچہ فراہم کرنے کا الزام ہے جو اسرائیل کے غیر قانونی قبضے کی حمایت کرتا ہے۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ مائیکروسافٹ نے ۱۹۹۱ء سے اپنی ٹیکنالوجی کو اسرائیلی فوج، پولیس اور اسکولوں میں ضم کر رکھا ہے۔ گوگل اور امیزون، "پروجیکٹ نمبس” کے تحت اسرائیل کو کلاؤڈ اور اے آئی انفراسٹرکچر فراہم کرتے ہیں۔ آئی بی ایم اور ایچ پی پر بھی اسرائیل کے بائیومیٹرک ٹریکنگ اور پرمٹ سسٹمز کی حمایت کرنے کا الزام ہے۔
مزید برآں، رپورٹ میں اسرائیلی فوجی کمپنیوں جیسے ایلبیٹ سسٹمز اور اسرائیل ایرو اسپیس انڈسٹریز کے علاوہ امریکی دفاعی کمپنی لاک ہیڈ مارٹن کا بھی ذکر ہے۔ ان کمپنیوں نے غزہ میں استعمال ہونے والے ڈرونز اور ہتھیاروں کی فراہمی سے بھاری منافع کمایا ہے۔
ایمیزون، ایئر بی این بی اور بکنگ ڈاٹ کام جیسی کمپنیاں غیر قانونی بستیوں میں براہ راست کام کرتی ہیں، مقبوضہ علاقوں میں سیاحت سے فائدہ اٹھاتی ہیں۔ ایلیانز اور ایکسا جیسی عالمی بیمہ کمپنیاں بھی قبضے اور نسل کشی سے منسلک حصص اور بانڈز میں بڑی رقمیں لگاتی ہیں۔
دریں اثنا البانیز نے اقوام متحدہ کے رکن ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل پر پابندیاں اور ایک جامع ہتھیاروں کی پابندی عائد کریں جس میں ٹیکنالوجی اور شہری مشینری جیسی دوہرے استعمال کی اشیاء بھی شامل ہوں۔ انہوں نے ریاستوں پر زور دیا کہ وہ تمام تجارتی معاہدات اور سرمایہ کاری کے تعلقات کو معطل کریں یا روکیں اور فلسطینیوں کی زندگیوں اور حقوق کو خطرہ میں ڈالنے والی سرگرمیوں میں ملوث اداروں اور افراد پر اثاثہ جات منجمد کرنے سمیت پابندیاں لگائیں۔ مزید برآں، انہوں نے کمپنیوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے براہ راست منسلک تمام کاروباری سرگرمیاں فوری طور پر بند کریں اور فلسطینی عوام کو ہرجانہ ادا کریں، جسے انہوں نے "نسل پرستی کے ذریعے بنائی گئی دولت پر ٹیکس” کہا ہے، جس کا ماڈل نسل پرستی کے بعد کے جنوبی افریقہ سے لیا گیا ہے۔