مائنارٹی اسکالرشپ میں 144 کروڑ کی بد عنوانی کا انکشاف
اقلیتی اسکالرشپ سے مستفید ہونے والوں میں سے تقریباً 53 فیصد 'فرضی' پائے گئے ,، مرکزی اقلیتی امور کی وزیر اسمرتی ایرانی نے مزید تحقیقات سی بی آئی کو سونپی
نئی دہلی ،20 اگست :۔
ملک میں اقلیتی طلبہ کی تعلیم کے لیے اقلیتی امور کی وزارت کی جانب سے دیے جانے والے اسکالرشپ میں بڑے پیمانے پر بد عنوانی کا انکشاف ہوا ہے ۔ اقلیتی اسکالرشپ سے مستفید ہونے والوں میں سے تقریباً 53 فیصد ‘فرضی’ پائے گئے ہیں۔ اقلیتی امور کی وزارت کی اندرونی تحقیقات میں اس مبینہ بدعنوانی کا پردہ فاش ہوا ہے۔
انڈیا ٹوڈے کی ایک رپورٹ کے مطابق، اب تک 830 ‘فرضی’ اداروں کا پتہ چلا ہے۔ رپورٹ میں 144.83 کروڑ روپے کے گھوٹالے کا ذکر ہے۔
اقلیتی امور کی وزیر اسمرتی ایرانی نے اس بڑے پیمانے پر بد عنوانی کی مزید تفتیش سی بی آئی (سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن) کو سونپ دی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اقلیتی وزارت نے اس معاملے میں 10 جولائی کو اپنی شکایت درج کرائی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ وزارت نے 34 ریاستوں کے 100 اضلاع میں اندرونی تحقیقات کی گئیں۔ ان میں سے 21 ریاستوں کے 1572 انسٹی ٹیوٹ میں سے 830 انسٹی ٹیوٹ فرضی پائے گئے ہیں۔ تقریباً 53 فیصد ‘جعلی’ امیدوار پائے گئے ہیں۔ باقی ریاستوں کے اداروں کی جانچ بھی جاری ہے۔ اس وقت حکام نے ان 830 اداروں سے منسلک اکاؤنٹس کو منجمد کرنے کا حکم دیا ہے۔
ذرائع کے مطابق یہ گھوٹالہ کئی سطحوں پر ہوا ہے اور یہ ادارہ جاتی کرپشن ہے۔ ادارے یا تو موجود نہیں ہیں یا کام نہیں کر رہے، لیکن نیشنل اسکالرشپ پورٹل اور یونیفائیڈ ڈسٹرکٹ انفارمیشن سسٹم فار ایجوکیشن (یو ڈی آئی ایس ای) دونوں پر رجسٹرڈ ہیں۔ اب سی بی آئی ان اداروں کے نوڈل افسران سے تفتیش کرے گی، جنہوں نے ان اداروں کو منظوری کی رپورٹ دی تھی۔ یعنی اب وہ ضلع نوڈل افسر، جنہوں نے فرضی معاملات کی تصدیق کی تھی، تحقیقات کے دائرے میں آئیں گے۔ اس بات کی بھی تفتیش کی جائے گی کہ کئی ریاستوں میں یہ گھوٹالہ برسوں تک کیسے چلتا رہا۔
وزارت نے یہ سوالات بھی اٹھائے ہیں کہ بینکوں نے جعلی آدھار کارڈ اور کے وائی سی دستاویزات کے ساتھ فائدہ اٹھانے والوں کے لیے جعلی اکاؤنٹس کھولنے کی اجازت کیسے دی؟
کیسے ہوا انکشاف؟
چھتیس گڑھ میں 62 انسٹی ٹیوٹ کی جانچ میں تمام انسٹی ٹیوٹ فرضی/ نان آپریشنل پائے گئے۔
راجستھان کے 128 اداروں کی جانچ کی گئی۔ اس میں 99 جعلی/ نان آپریشنل پائے گئے۔
آسام میں 68 فیصد ادارے جعلی پائے گئے۔
کرناٹک میں 64 فیصد ادارے جعلی پائے گئے۔
یوپی میں 44 فیصد ادارے جعلی پائے گئے۔
مغربی بنگال میں 39 فیصد ادارے جعلی پائے گئے۔
ملاپورم، کیرالہ میں ایک بینک کی شاخ نے 66,000 اسکالرشپ دی۔ یہ تعداد اقلیتی طلباء کی رجسٹرڈ تعداد سے زیادہ پائی گئی۔
جموں و کشمیر کے اننت ناگ کے ایک کالج میں، جس میں 5000 طلبہ رجسٹرڈ ہیں، اس کالج سے 7000 اسکالرشپ کا دعویٰ کیا گیا تھا۔
والدین کا موبائل نمبر 22 بچوں سے منسلک پایا گیا، جن میں سے سبھی مبینہ طور پر 9ویں کلاس میں تھے۔
ایک اور اقلیتی ادارے میں جہاں ہاسٹل نہیں ہے، وہاں کے تمام طلباء کے نام پر ہاسٹل اسکالرشپ کا دعویٰ کیا گیا تھا
پنجاب میں ایسے اقلیتی طلباء کو وظیفہ ملا، جن کا اسکول میں داخلہ بھی نہیں تھا۔
بتا دیں کہ اقلیتی طلباء کے لیے اسکالرشپ کی اسکیم 2007۔08 میں شروع کی گئی تھی۔ اقلیتی وزارت 1 لاکھ 80 ہزار اداروں کو اسکالر شپ دیتی ہے۔ کلاس ون سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے اقلیتی طلباء کو اس کا فائدہ ملتا ہے۔