لیو ان ریلیشن شپ کے بڑھتے معاملات سے الہ آباد ہائی کورٹ سخت برہم
ہائی کورٹ نے کہا کہ لیو ان ریلیشن شپ سے سب سے زیادہ نقصان خواتین کو ہو رہا ہے

مشتاق عامر
نئی دہلی ،28 جون :۔
الہ آباد ہائی کورٹ نے سماج میں بڑھتے ہوئے لیو ان ریلیشن شپ کے معاملات پر اپنی سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے ۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ لیو اِن ریلیشن شپس مڈل کلاس اقدار کے خلاف ہیں۔ عدالت کہا ہے کہ اس طرح کے رشتوں سے سب سے زیادہ نقصان خواتین کو ہو رہا ہے۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے یہ بھی کہا کہ جب سے سپریم کورٹ نے لیو ان ریلیشن شپ کو قانونی حیثیت دی ہے ، اس طرح کے معاملات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے ۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے مشاہدہ کیا ہے کہ لیو اِن ریلیشن شپ سے علیحدگی کی صورت میں خواتین کو مردوں کے مقابلے میں زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ کیونکہ مرد آسانی کے ساتھ اپنی زندگی میں آگے بڑھ کر شادی کرلیتے ہیں جبکہ خواتین کے لیے نیا جیون ساتھی تلاش کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ عدالت نے کہا کہ ایسے رشتے ہندوستانی مڈل کلاس سماج میں رائج اخلاقی قدروں اور خاندانی اصولوں کے سخت خلاف ہیں ۔
جسٹس سدھارتھ کی بنچ نے ایک معاملے کی سماعت کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ جب سے سپریم کورٹ نے لیو اِن ریلیشن شپ کو قانونی قرار دیا ہے، عدالتوں میں ایسے مقدمات کی بھرمار ہو گئی ہے۔جسٹس سدھارتھ نے کہا کہ عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ جب سے سپریم کورٹ نے لیو اِن ریلیشن شپ کو قانونی حیثیت دی ہے، عدالت ایسے مقدمات سے تنگ آ چکی ہے۔ یہ مقدمات اس لیے سامنے آ رہے ہیں کیونکہ لیو اِن ریلیشن شپ کا تصور ہندوستانی مڈل کلاس سوسائٹی کے طے شدہ اصولوں کے سراسر خلاف ہے۔
جسٹس سدھارتھ کی بنچ نے عدالتوں میں لیو ان ریلیشن شپ کے بڑھتے ہوئے کیسز پر ناراضی کا اظہار کیا۔ جسٹس سدھارتھ نے کہا کہ لیو اِن ریلیشن شپ کا تصور خواتین کے مفاد کے سراسر خلاف ہے۔ کیونکہ ایک مرد کسی خاتون یا کئی خواتین کے ساتھ لیو اِن ریلیشن شپ میں رہنے کے بعد بھی آسانی سےشادی کر سکتا ہے لیکن خاتون کے لیے علیحدگی کے بعد شریکِ حیات تلاش کرنا مشکل ہو جاتا ہے ۔ جسٹس سدھارتھ نے مزید کہا کہ عدالت نے اپنے مشاہدے میں پایا ہے کہ جب سے سپریم کورٹ نے لیو اِن ریلیشن شپ کو قانونی حیثیت دی ہے تب سے ایسے کیسز عدالت میں بار بار آ رہے ہیں۔ اس طرح کے مقدمات سے عدالت عاجز آ چکی ہے۔ یہ رجحان ہندوستانی مڈل کلاس سماج کے طے شدہ اصولوں کے سخت خلاف ہے۔
واضح رہے کہ یہ سخت تبصرہ اس وقت کیا گیا جب عدالت ایک ملزم شان عالم کی ضمانت کی درخواست پر سماعت کر رہی تھی، جس پر بھارتیہ نیائے سنہتا (BNS) اور پوکسو (POCSO) ایکٹ کے تحت مختلف دفعات میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ اس پر الزام تھا کہ اس نے شادی کا جھوٹا وعدہ کر کے متاثرہ خاتون کے ساتھ جسمانی تعلق قائم کیا اور بعد میں اپنے وعدے سے صاف مکر گیا۔
مدعی کی طرف سے وکیل مدھو یادو نے دلیل دی کہ ملزم کی حرکتوں نے متاثرہ خاتون کی پوری زندگی برباد کر دی ہے اور اب کوئی بھی اس سے شادی کے لیے تیار نہیں ہوگا۔عدالت نے اس دلیل کو نوٹ کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ لیو اِن ریلیشن شپ کا تصور نوجوان نسل کو متوجہ کر رہا ہے، لیکن اس کے نتائج اس جیسے کیسز میں واضح طور پر نظر آ رہے ہیں۔تاہم عدالت نے ملزم شان عالم کو ضمانت دے دی کیونکہ وہ 25 فروری سے جیل میں بند تھا۔ الزامات کی نوعیت، اس کا مجرمانہ ریکارڈ نہ ہونا اور جیلوں میں بھیڑ کے پیش نظر یہ فیصلہ دیا گیا۔