لکشدیپ: حجاب پر پابندی کاخدشہ،اسکول ڈریس کے لیے جاری سرکلر کے خلاف احتجاج
نئی دہلی،16اگست :۔
ملک کا سب سے چھوٹا مرکز کے زیر انتظام علاقہ لکشدیپ بہت ہی پر سکون جزیرہ ہے لیکن ان دنوں یہاں بھی تنازعات جنم لینے لگے ہیں۔ اس سے قبل یہ خبریں آئی تھیں کہ لکشدیپ کے ایڈمنسٹریٹر اور گجراتی سیاست داں پرفل کھوڈا بھائی پٹیل کی جانب سے بیلوں، بچھڑوں اور گایوں کے ذبیحہ پر پابندی لگانے اور ’ترقی‘ کے لیے زمین حاصل کرنے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔لکشدیپ کے باشندوں نے اس کی مخالفت کی کیونکہ انہیں لگا کہ یہ حکم کارپوریٹ گھرانوں کو سرکاری زمین الاٹ کرنے کے لیے دیا جا رہا ہے۔واضح رہے کہ اس جزیرے پر آباد90 فیصد سے زیادہ آبادی مسلمانوں کی ہے۔
انڈیا ٹو مارو کی رپورٹ کے مطابق اب یہ جزیرہ ایک اور نئے تنازع میں الجھ گیا ہے۔ اس بار تنازعہ سرکاری اسکولوں میں یونیفارم کے نفاذ کو لے کر ہے۔یہاں کے مقامی باشندوں نے 11 اگست کو اسکول یونیفارم کے نئے آرڈر کے خلاف احتجاج کیا کیونکہ انہیں شبہ ہے کہ یونیفارم کو نافذ کرنے کا یہ حکم ‘حجاب’ پر پابندی لگانے کے لیے دیا گیا ہے۔ جیسا کہ کرناٹک میں پچھلی بی جے پی حکومت نے کیا تھا۔
کانگریس اور نیشنلسٹ کانگریس پارٹی جیسی سیاسی جماعتیں اس کے خلاف جمہوری تحریک چلانے کا منصوبہ بنا رہی ہیں۔ سکول کے طلباء بھی کلاسوں کا بائیکاٹ کر سکتے ہیں۔
10 اگست کو جاری کردہ اسکول یونیفارم سے متعلق سرکلر میں اسکول حکام سے کہا گیا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ طلباء مقررہ یونیفارم کے علاوہ کوئی دوسرا لباس نہ پہنیں۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ اگر حجاب کو یونیفارم میں شامل نہیں کیا گیا تو طالبات اسے پہن نہیں سکیں گی۔ حکم نامہ مؤثر طریقے سے حجاب پہننے پر پابندی لگاتا ہے۔
یہ حکم یونین ٹیریٹری کے ڈائرکٹر آف ایجوکیشن راکیش دہیا نے جاری کیا ہے۔حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ’’تمام پرنسپلز اور اسکولوں کے سربراہان کو ہدایت کی گئی ہے کہ ہر طالب علم مقررہ لباس میں اسکول میں حاضری کو یقینی بنائیں، جس سے نہ صرف یکسانیت، اتحاد اور بھائی چارے کے جذبے کو یقینی بنایا جائے گا بلکہ طلبہ میں نظم و ضبط بھی پیدا ہوگا۔‘‘ اس لیے اسکولوں کے پرنسپلز اور سربراہان کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ تمام کام کے دنوں میں منظور شدہ یونیفارم پیٹرن پر سختی سے عمل کریں۔ حکم نامے کی عدم تعمیل کو سنجیدگی سے دیکھا جائے گا۔
محکمہ تعلیم کی طرف سے تمام طلباء کے لیے تجویز کردہ یونیفارم میں ٹائی، بیلٹ، موزے اور جوتے شامل ہیں۔ پانچویں جماعت تک کے لڑکوں کو ہاف پینٹ اور اسکائی بلیو ہاف آستین کی قمیض پہننا ہوگی جبکہ کلاس پانچ سے کلاس 12 تک کے سینئر طلباء کو نیوی بلیو فل پینٹ اور اسکائی بلیو ہاف آستین والی شرٹ میں اسکول جانے کے لیے کہا گیا ہے۔
پانچویں جماعت تک کی لڑکیوں کو چیک ڈیزائن کا اسکرٹ اور اسکائی بلیو ہاف آستین والی شرٹ پہننی ہوگی اور کلاس VI سے XII تک کی طالبات کو نیوی بلیو اسکرٹ اور اسکائی بلیو ہاف سلیو شرٹ پہننی ہوگی۔
کانگریس اور نیشنلسٹ کانگریس پارٹی نے اس یونیفارم کی یہ کہتے ہوئے مخالفت کی ہے کہ یہ لکشدیپ کی ثقافت پر حملہ ہے۔ایک فیس بک پوسٹ میں، لکشدیپ سے این سی پی کے ایم پی محمد فیضل نے جزیرے کے لوگوں، خاص طور پر والدین پر زور دیا کہ وہ اسکولوں میں حجاب پر پابندی کے انتظامیہ کے کسی بھی اقدام کی مخالفت کریں۔
ایم پی فیضل نے کہا کہ سرکاری خط میں حجاب کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا لیکن پرنسپلز اور سکولوں کے سربراہوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ طلباء مقررہ لباس کے علاوہ کچھ نہ پہنیں۔
فیضل نے کہا، ’’ہمیں شبہ ہے کہ یہ لڑکیوں کو حجاب پہننے سے روکنے کے لیے کیا گیا ہے۔ تاکہ طالبات خوف کی وجہ سے حجاب نہ پہنیں۔ اس لیے ہم انتظامیہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ حکم واپس لے۔
کانگریس پارٹی کے نوجوان لیڈر علی اکبر، جنہوں نے سرکلر کے خلاف احتجاج کا اہتمام کیا، کہا کہ اگرچہ اسکول کے حکام نے لڑکیوں سے جمعہ کو حجاب پہننے پر کوئی پوچھ گچھ نہیں کی، لیکن اس حکم کو اگلے ہفتے سے نافذ کیا جا سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم بدھ کو بلاک ڈیولپمنٹ دفاتر اور محکمہ تعلیم کے دفاتر تک مارچ کا اہتمام کریں گے۔
کانگریس لیڈر اور سابق ایم پی محمد حمد اللہ سعید نے الزام لگایا کہ نیا سرکلر خطے کی اندرونی ثقافت اور طرز زندگی پر حملہ ہے۔ انہوں نے الزام لگایا، "مرکز میں بی جے پی زیرقیادت حکومت اور لکشدیپ انتظامیہ مسلسل عوام مخالف پالیسیوں کو نافذ کرنے کی کوشش کر رہی ہے جو مکمل طور پر جزائر کی ثقافت اور اخلاقیات کے خلاف ہے۔”
قابل ذکر ہے کہ 2021 میں سی ایم پی کے رکن پارلیمنٹ ایلارام کریم نے اس وقت کے صدر رام ناتھ کووند کو ایڈمنسٹریٹر کے عہدے سے ہٹانے کے لیے خط لکھا تھا۔ مسٹر پٹیل پر جزیرے کی مذہبی اور ثقافتی شناخت کو تباہ کرنے کا الزام تھا۔پٹیل پر مویشیوں کے تحفظ کے نام پر گائے کے گوشت پر پابندی لگانے کا الزام تھا۔