’’لو جہاد‘‘ قوانین: یوپی حکومت نے قانون سازی کے خلاف الہ آباد ہائی کورٹ میں دائر درخواستوں کی منتقلی کے سپریم میں درخواست دائر کی

اترپردیش، جنوری 20: بار اینڈ بینچ کی خبر کے مطابق اتر پردیش حکومت نے اس کے مذہبی تبدیلی مخالف آرڈیننس کے خلاف الہ آباد ہائی کورٹ میں دائر درخواستوں کو منتقل کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں رجوع کیا ہے۔ امکان ہے کہ اعلی عدالت اس ہفتے اس معاملے کی سماعت کرے گی۔

دی نیو انڈین ایکسپریس کے مطابق منتقلی کی اپنی درخواست میں آدتیہ ناتھ حکومت نے آئین کی دفعہ 139 اے کا حوالہ دیا ہے۔ دفعہ 139 اے سپریم کورٹ کو کسی بھی ہائی کورٹ کے روبرو زیر التوا کسی بھی معاملے کو کسی دوسرے ہائی کورٹ میں منتقل کرنے یا واپس لینے کا اختیار فراہم کرتی ہے۔

یہ پیش رفت پیر کو اس وقت منظرعام پر آئی جب الہ آباد ہائی کورٹ کے روبرو اترپردیش کے تبدیلی مذہب مخالف آرڈیننس 2020 کو چیلینج کرنے کی ایک درخواست سماعت کے لیے سامنے آئی۔ منتقلی کی درخواست کے بارے میں جاننے کے بعد ہائی کورٹ نے سماعت 25 جنوری تک ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ آدتیہ ناتھ کی زیرقیادت ریاستی کابینہ کی طرف سے منظور ہونے کے کچھ گھنٹوں بعد ہی اتر پردیش کی گورنر آنندین پٹیل نے اسے 28 نومبر کو نافذ کر دیا تھا۔ تب سے اس قانون کے تحت کے پولیس نے پچاس سے زیادہ مسلمان مردوں کو گرفتار کیا ہے۔

معلوم ہو کہ اس قانون کا اصل مقصد ’’لو جہاد‘‘ (Love Jihad) کو نشانہ بنانا ہے، جو کہ دائیں بازو کی تنظیموں کی ایک من گڑھت سازشی اصطلاح ہے، جس کے تحت وہ مسلمان مردوں پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ شادی کے نام پر ہندو خواتین کا مذہب تبدیل کرواتے ہیں۔

اس آرڈیننس کو الہ آباد ہائی کورٹ کے سامنے اس بنیاد پر چیلنج کیا گیا تھا کہ اس سے آئین کی دفعہ 21 کے تحت دی گئی رازداری اور فرد کی آزادی کی ضمانت کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ 18 دسمبر کو ہائی کورٹ نے اترپردیش حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے قانون کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کے بیچ پر جوابی حلف نامے داخل کرنے کے لیے کہا تھا۔ تاہم عدالت نے حکم امتناع کی شکل میں عبوری ریلیف دینے سے انکار کردیا تھا۔

بعدازاں اس آرٹیننس کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں بھی درخواستیں دائر کی گئیں، جن میں اتراکھنڈ میں سنہ 2018 میں نافذ کیے گئے اسی طرح کے ایک قانون کو بھی چیلنج کیا گیا ہے۔ اس ماہ کے شروع میں سپریم کورٹ نے اتر پردیش اور اتراکھنڈ کے ذریعہ نافذ کیے گئے مذہبی تبدیلی مخالف قوانین کے آئینی جواز کی جانچ کرنے پر اتفاق کیا تھا، لیکن ان ریاستوں میں ان متنازعہ قانون سازی کو روکنے سے انکار کردیا تھا۔

معلوم ہو کہ مرکز نے گذشتہ سال فروری میں لوک سبھا کو بتایا تھا کہ مرکزی ایجنسیوں میں سے کسی کو بھی ’’لو جہاد‘‘ کے معاملے کی اطلاع نہیں ملی ہے۔ قومی تفتیشی ایجنسی اور کرناٹک کے فوجداری تفتیشی محکمہ کی تحقیقات میں بھی اس مبینہ سازش کا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا ہے۔ خواتین کے قومی کمیشن کے پاس بھی ’’لو جہاد‘‘ کے بارے میں کوئی بھی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔