لوک سبھا انتخابات 2024: وزیر اعظم دس سال کے کام کے بجائے مسلمان اور پاکستان کے نام پر مانگ رہے ہیں ووٹ
پہلے اور دوسرے مرحلے کی ووٹنگ مکمل ہونے کے بعد مایوس بی جے پی نے پولرائزیشن کا راستہ اختیار کرتے ہوئے اپنی ترقی اور رام مندر کی پالیسی کو تبدیل کر دیا ہے
نئی دہلی ،03مئی :۔
لوک سبھا انتخابات 2024 کے دومرحلے کی ووٹنگ مکمل ہو گئی ہے۔دریں اثنا حسب سابق بی جے پی اپنے پرانے روش پر لوٹ رہی ہے۔جس بات کا الزام ہمیشہ لگایا جاتا ہے کہ الیکشن کے دوران بی جے پی مسلمان اور پاکستان کے نام پر ووٹ مانگتی ہے۔ اس الیکشن کی تشہیر کے دوران وہی نظر آ رہا ہے۔خود وزیر اعظم مسلمان اور پاکستان کا خوف دکھا کر ہندو اکثریت سے ووٹ کی اپیل کر رہے ہیں ۔
حالانکہ بی جے پی کا یہ دعوی تھا کہ وہ اپنے دس سال کی کار کردگی لے کر اور رپورٹ کارڈ لے کر وعوام کے درمیان جائے گی لیکن پہلے مرحلے کی ووٹنگ مکمل ہونے کے بعد خود وزیر اعظم نے اپنی تقریروں میں مسلمانوں کے خلاف بیان بازی شروع کر دی ۔ راجستھان کے بانسواڑہ میں وزیر اعظم نے کانگریس کے بہانے مسلمانوں کو درانداز قرار دیا ۔ اس کے بعد مسلسل اپنی انتخابی تشہیر میں مسلمانوں کا نام لے کر اقلیتوں کے بہانے اکثریتی طبقہ کے ووٹروں کو لبھانے کی مسلسل کوششیں کر رہی ہیں ۔اس دوران ترقیاتی کاموں کا ذکر محدود ہو کر رہ گیا ہے۔
دریں اثناوزیر اعظم نریندر مودی نے جمعرات کو کانگریس لیڈر راہل گاندھی پر حملہ کے بہانے پاکستان کا بھی ذکر کر ہی دیا ۔ پی ایم مودی نے کہا ہے کہ پاکستان راہل گاندھی کو وزیر اعظم بنانے کے لیے اتاؤلا ہے۔ پی ایم مودی نے کانگریس کو پاکستان کا پرستار بھی کہا ہے۔
پی ایم مودی جمعرات کو گجرات کے آنند شہر میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کر رہے تھے۔ یہاں پی ایم مودی نے طنزیہ انداز میں کہا کہ آج جب کانگریس کمزور ہو رہی ہے، جب یہاں کانگریس مر رہی ہے تو پاکستان رونے لگتا ہے۔ اب پاکستانی لیڈر کانگریس کے لیے دعائیں کر رہے ہیں۔ راہل گاندھی کو نشانہ بناتے ہوئے پی ایم مودی نے کہا کہ پاکستان شہزادے کو وزیراعظم بنانے کے لیے بے چین ہے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق مودی کی انتخابی مہم میں پاکستان کے ذکر کے بارے میں سابق آپ رکن اور معرو ف مبصر آشوتوش نے کہا کہ پاکستان اور مسلمان ایک ہی سکے کے دو پہلو کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ’مسلمانوں کو ملک دشمن اور غدار کے طور پر یا پاکستانی کے طور پر پیش کر کے تقسیم پیدا کی جاتی ہے تاکہ بی جے پی کو اس سے فائدہ ہو-
بی بی سی اردو کے مطابق سیاسی مبصر آرتی آر جیرتھ نے کہا کہ ’پہلے مرحلے کے انتخابات کے بعد مودی کی حکمت عملی پوری طرح سے بدل گئی ہے اور بانسواڑا میں مودی کے بیان کے بعد سے یہ باتیں اب امت شاہ اور انوراگ ٹھاکر جیسے دوسرے رہنما بھی کھلے عام کرنے لگے ہیں اس طرح کے بیانات کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ان کے جو اپنے موضوعات تھے ان میں ووٹروں کو جوش دلانے کی قوت نہیں رہی۔ چاہے وہ رام مندر کا معاملہ ہو یا ترقی یافتہ بھارت کا۔یہ سب ووٹروں میں متوقع جوش پیدا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔‘
واضح رہے کہ اس طرح عوامی جلسوں میں بی جے پی کے اپنے دس سال کی کار کردگی کے بجائے مسلمان اور پاکستان کے نام کا ذکر پر تنقید کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ بی جے پی نے اگر کام کیا ہے جیسا کہ اس کا دعویٰ ہے تو اپنے کام کی بنیاد پر کیوں نہیں ووٹ مانگ رہی ہے۔بی جے پی کا اور خود وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ گزشتہ دس سالوں میں وہ کام ہوئے ہیں جو کام کانگریس نے ستر سال میں نہیں کئے۔تو آخر وزیر اعظم اور بی جے پی کو ایسی کیا مجبوری آ گئی کہ وہ اپنے دس سال کے رپورٹ کارڈ پر ووٹ مانگنے کے بجائے پاکستان اور مسلمان کے نام پر ووٹ مانگ رہی ہے۔
خیال رہے کہ یہ معاملہ صرف وزیر اعظم تک محدود نہیں ہے بلکہ اعلیٰ قیادت سے لے کر نچلی سطح کے لیڈر بھی وزیر اعظم کی طرح اس الیکشن کو ہندو مسلمان اور پاکستان کرنے میں مصروف ہیں۔