لبنان: اپنی ہی رقم نکالنے کے لیے’بینکوں پر ڈاکوں’ کا سلسلہ تیز
نئی دہلی، 17 ستمبر 2022: لبنان میں جمعے کے روز لوگوں نے اپنی ہی رقم نکالنے کے لیے پانچ بینکوں پر حملے کر دیے، صرف اس ایک ہفتے کے دوران ایسے سات واقعات پیش آ چکے ہیں۔ اس صورت حال کے مدنظر حکام بینکوں میں تالہ لگانے کے لیے مجبور ہو گئے ہیں۔
قرض کے بوجھ تلے دبے ملک لبنان کی بینک ایسوسی ایشن کے مطابق جمعے کے روز لوگوں کی طرف سے پانچ بینکوں پر حملے کے واقعات کے بعد پیر سے اگلے تین روز کے لیے بینکوں کو بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ جمعے کے روز بینکوں پر کیے جانے والے حملے لبنان میں ”بینک ڈکیتیوں“ کی وارداتوں کے سلسلے کی تازہ ترین کڑی ہیں۔
بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی کی ایک رپورٹ کے مطابق اس سے قبل اسی ہفتے بدھ کو بیروت میں ایک خاتون نے بچوں کے کھیلنے والے پستول سے بینک کے عملے کو یرغمال بنا کر اپنی رقم نکلوائی تھی جس کے بعد کئی صارفین نے یہی طریقہ اختیار کیا۔ بینکوں پر حملے کرکے اپنی رقم نکلوانے میں کامیاب ہوجانے والوں کا ”ہیرو“ کی طرح استقبال کیا جارہا ہے۔کھاتہ داروں کے بینکوں پر دھاوا بولنے کے واقعات میں اضافے کو دیکھتے ہوئے وزیر داخلہ بسام مالاوی نے ہنگامی اجلاس طلب کیا۔ بعد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا،”اپنا حق اس طریقے سے واپس لینے سے سسٹم ٹوٹ پھوٹ سکتا ہے جس کے نتیجے میں دیگر کھاتہ دار اپنا حق کھو دیں گے۔“
خبر رساں ایجنسی کے مطابق جمعے کے روز بیروت میں تین جبکہ جنوبی لبنان میں بینک ‘ڈکیتی‘ کے دو واقعات رپورٹ کیے گئے۔ایک واقعے میں جنوبی قصبے غازیہ میں ایک شخص نے پستول اور ایندھن سے بھرے جیری کین کے ساتھ بینک میں گھس کر اپنی رقم واپس کرنے کا مطالبہ کیا۔ مذکورہ شخص نے ایندھن سے بھرا جیریکین فرش پر خالی کیا اور اپنے اکاؤنٹ میں موجود رقم واپس مانگی بصورت دیگر آگ لگا دینے کی دھمکی دی۔ بینک سے 19 ہزار ڈالر کی رقم لے کر نکلنے والے ‘ڈکیت‘ کو پولیس نے حراست میں لے لیا تاہم کچھ دیر بعد ہی اس کی حمایت میں ہجوم سڑکوں پر آنکلا۔
گزشتہ ماہ باسم شیخ نامی ایک ڈرائیور نے بیروت کے ایک بینک کے عملے کے دس افراد کو بندوق کی نوک پر یرغمال بنالیا تھا۔ سکیورٹی اور بینک حکام کے ساتھ سات گھنٹوں تک چلنے والی بات چیت کے بعد باسم شیخ اپنی بچت کی رقم میں سے 35000 ڈالر لینے اور خود کو پولیس کے حوالے کرنے پر رضامند ہو گئے تھے۔ اس واقعے کے بعد لوگوں نے انہیں ”ہیرو“ قرار دیا تھا۔
عالمی بینک نے لبنان کی صورت حال کو دنیا کے بدترین اقتصادی بحران میں سے ایک قرار دیا ہے۔ لبنان ان دنوں سنگین اقتصادی بحران سے دوچار ہے۔ یہ ملک کی جدید تاریخ میں اب تک کا سب سے سنگین اقتصادی بحران ہے۔ ضروری اشیاء کی سپلائی محدود ہو گئی ہے، مقامی کرنسی کی قدر گر گئی ہے اور بینکوں نے پیسے نکالنے پر سخت پابندی لگا دی ہے۔لبنان نہ تو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے مطالبات کو پورا کرنے کی پوزیشن میں ہے اور نہ ہی سنہ 2022 کا عام بجٹ منظور کرانے میں کامیاب ہوسکا ہے۔ جب کہ غیر ملکی مالی امداد کے لیے ملک میں مالی اصلاحات ناگزیر ہوچکی ہیں۔لبنان ’تباہی کے دہانے‘ پر پہنچ چکا ہے!
لبنان پہلی مرتبہ مارچ 2020 میں اپنا قرض ادا کرنے میں ناکام رہا، جو اس وقت تقریباً 90 ارب ڈالر یا ملک کی جی ڈی پی کا 17 فیصد تھا۔ کورونا وائرس کی وبا نے صورت حال کو مزید ابتر بنا دیا۔ اس کے علاوہ سن 2020 میں بیروت کے قلب میں واقع فرٹیلائرز اسٹور کرنے کے ایک بڑے گودام میں دھماکے ہوا جس میں 200 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے اور اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔عالمی بینک نے لبنان کی صورت حال کو دنیا کے بدترین اقتصادی بحران میں سے ایک قرار دیا ہے۔بینکوں میں ”ڈکیتی“ کے واقعات کے بعد لبنان بینک ایمپلائز یونین کے صدر کا کہنا تھا،”ایسے واقعات پھر پیش آسکتے ہیں، ہمیں کوئی ٹھوس حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔“
ان کا کہنا تھا کہ لوگ بینکوں میں جمع اپنی رقم واپس چاہتے ہیں لیکن پیسے نہیں ملنے پر ان کا غصہ بینک ملازمین پر نکلتا ہے کیوں کہ وہ اعلیٰ عہدیداروں تک نہیں پہنچ پاتے۔