لاک ڈاؤن: ہزاروں مزدور اور نوکری پیشہ افراد پیدل ہی وطن جانے کو مجبور

ریاستوں کی سرحدیں اور شاہراہیں نقل مکانی کا منظر کا پیش کر رہی ہیں، لیکن ان مزدوروں کے پاس پیدل گھر جانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا۔

انتریش کمار، عمر ۲۱ سال، کل جنوب مغربی دلی کے دھرم پوری سے علی الصبح تین بجے پیدل نکل کھڑے ہوئے۔ وہ ایک دہاڑی مزدور ہیں اور انھیں اکیس دن کے لاک ڈاؤن کے دوران میں کام ملنے کی کوئی آس نہیں ۔ لہذا انھوں نے اپنے وطن مرادآباد واپس جانے کا فیصلہ کیا۔ عوامی ٹرانسپورٹ بند ہونے کے باعث وہ پیدل ہی گھر سے نکل پڑے ، ہر چند کہ وہ جانتے ہیں کہ انھیں پونے دو سو کلومیٹر کا طویل فاصلہ چل کر طے کرنا ہوگا اور شاید راستے میں کئی جگہ پولیس کے قہر کا نشانہ بھی بننا پڑے۔
انتریش اس صعوبت کو اٹھانے والے تنہا نہیں ہیں۔ ملک گیر لاک ڈاؤن کی وجہ سے پبلک ٹرانسپورٹ کا چکا جام ہوچکا ہے۔ اور ہزاروں دہاڑی کے مزدور جو روز مزدوری کرکے اپنا چولہا جلاتے ہیں اس ناگہانی آفت سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ اب شہروں میں کھانے کے لالے پڑ گئے ہیں۔ اس لیے پیدل ہی وطن جانے کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔
ایک اندازے کے مطابق احمدآباد میں کام کرنے والے دوسری ریاستوں سے آئے دو ہزار سے زیادہ مزدور منگل کی شام ہی کو ، وزیر اعظم قوم کے نام اپنا خطا ب کر رہے تھے، پیدل وطن روانہ ہورہے تھے۔ راجستھان میں اپنے گاووں کی جانب رواں ، پیدل اور کہیں کہیں کسی گاڑی سے لفٹ لے کر، وہ ایک دن بعد احمد آباد سے ۱۲۵ کلومیٹر بچھی واڑا پہنچ گئے۔
راجستھان کے بانسواڑا کے چیف میڈیکل اینڈ ہیلتھ افسر ڈاکٹر ہیرا لال تبیار نے بتایا "راجستھان اور مدھیہ پردیش کے بارڈر پر سیکڑوں لوگوں کو پیدل چلتے ہوئے دیکھا گیا ہے، اب تک یہاں پر ۴۵۰۰ مزدور آچکے ہیں اور ہم نے ان تمام کو آنے سے پہلے اسکرین کیا ہے۔”
بانسواڑا کے ۳۲ سالہ ایک مزدور ٹھیکدار دشرتھ یادو نے بتایا کہ وہ احمدآباد سے پیدل نکل کھڑے ہوئے اور چار گھنٹے چلنے کے بعد انھیں ایک گاڑی مل گئی جس نے انھیں لفٹ دے دی۔ ہم ۱۲ لوگ تھے۔ ہمیں ایک پولیس ناکے پر روک لیا گیا اور کہا گیا کہ ایک ٹرک پر سوار ہوجائیں جسپر پہلے سے سو لوگ موجود تھے۔ یہ ٹرک جگہ جگہ پولیس کی چیکنگ کی وجہ سے بہت سست رفتاری سے آگے بڑھ رہا تھا۔ ہمارے پاس نہ کھانا تھا اور نہ پینے کے لیے پانی۔ جب ہم اراولی میں شاملاجی پہنچے تو ہمیں اتار دیا گیا۔ پھر ہمیں بچھی واڑا تک دو گھنٹے پیدل چل کر آنا پڑا۔”
راجستھان کے حکام نے بدھ کے روز احمد آباد سے ۲۰۰۰ لوگوں کے پہنچنے کی تصدیق کی ہے۔
بچھی واڑا کے تحصیل دار امرت پٹیل نے بتایا: "ہم نے اسٹیٹ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کی بسوں اور پندرہ بیس منی بسوں کا انتظام کیا ہے۔ ان سب لوگوں کو ایک دوسرے سے فاصلہ یقینی بناتے ہوئے گھر بھیجا جارہا ہے۔”
انتریش جو دلی سے مرادآباد جارہے ہیں نے کہا: "ہم روز دو سے ڈھائی سو روپے کماتے تھے۔ جب سب کچھ بند ہوگیا تو کمائی بھی بند ہوگئی۔ لیکن ہمارا مکان مالک ہم سے کرایہ مانگ رہا تھا۔ دوکانیں بند ہونے کی وجہ سے ہمیں کہیں پر کھانا بھی نہیں مل رہا تھا۔ ”
آرام سنگھ نے، جو پریت وہار ، دلی سے گھر کے لیے روانہ ہوا ہے ، کہا کہ کم از کم گھر میں ہمیں کھانے کو تو ملے گا۔ "ہم کہیں بھی سو جائیں گے، اور راستے میں جو ملا کھا لیں گے لیکن ہمیں گھر پہنچنا ہے۔” آرام سنگھ خوش تھا کہ پولیس نے اس کی مدد کی۔ ”
(انڈین ایکسپریس کی رپورٹ سے مقتبس)