قیدیوں کی رہائی کے بدلے جنگ بندی کی حماس کی شرط ناقابل قبول:نتن یاہو
تل ابیب،06 مئی:۔
غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت پر لگانے لگانے کی عالمی برادری کی تمام تر کوششیں نا کام ہوتی جا رہی ہے۔قطر،مصر اور امریکہ کی ثالثی کے درمیان نئی جنگی بندی کی کوششیں بھی امید افزا نظر نہیں آ رہی ہیں ۔رپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو نے اتوار کو تصدیق کی کہ ان کی حکومت حماس کے ساتھ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے پر پہنچنے کے لیے تیار ہے لیکن انہوں نے حماس پر الزام لگایا کہ اس نے ناقابل قبول مطالبات پیش کئے ہیں۔
نیتن یاہو نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ حماس ضرورت سے زیادہ مطالبات کر رہا ہے۔ ان کا بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ ہم غزہ کی پٹی سے اپنی تمام فوجیوں کو واپس بلا لیں، جنگ ختم کریں اور حماس کو تنہا چھوڑ دیں۔ اسرائیل ان شرائط کو قبول نہیں کر سکتا۔
بنجامن نیتن یاہو نے کہا کہ حماس کے ساتھ بالواسطہ بات چیت کے تازہ ترین دور کے دوران اسرائیلی حکومت نے رعایتیں دینے کے لیے اپنی رضامندی کا مظاہرہ کیا، جسے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے فراخدلانہ قرار دیا۔ اس کے باوجود اسرائیلی وزیراعظم نے اصرار کیا کہ ان کی حکومت غزہ میں اپنے فوجی اہداف کو کبھی ترک نہیں کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ غزہ سے اسرائیل کے انخلاء کا مطلب اسرائیل کا ہتھیار ڈالنا ہوگا اور یہ "حماس، ایران کے لیے ایک بڑی فتح ہوگی۔”
واضح رہے کہ غزہ میں انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کی متعدد کوششیں ہوئی ہیں لیکن اب تک کوئی کامیابی نہیں ملی ہے۔ اقوام متحدہ میں بھی اسرائیلی حکومت کی سرزنش کی گئی ہے لیکن اس کا خاطر خواہ نتیجہ بر آمد نہیں ہوا ہے۔ایک بار پھر مصر اور قطر کے ساتھ امریکی ثالثی میں قدم بڑھایا گیا ہے لیکن ان قدموں پر بھی اسرائیلی وزیر اعظم کا اصرا ر پانی پھیرتا نظر آ رہا ہے۔اسرائیلی وزیر اعظم نے حماس کی جنگی بندی کی شرائط کو ہتھیار ڈالنے سے مترادف قرار دیا ہے اور ان شرائط کو ناقابل قبول قرار دیاہے۔