فکر و نظر کی آزادی جب تک رہے گی تب تک یہ اختلافات مذاہب و مسالک موجود رہیں گے
اے ایم یو کے بِرج کورس میں ’اختلافات کے آداب‘ موضوع پر پروفیسر سعود عالم قاسمی کا خطاب
![](https://dawatnews.net/wp-content/uploads/2025/02/پروفیسر-سعود-عالم-قاسمی-خطاب-کرتے-ہوئے-750x430.jpg)
نئی دہلی ،علی گڑھ، 13 فروری :
”جتنا اہم مسئلہ بین المذاہب تفاہیم کا ہے اتنا ہی اہم مسئلہ بین المسالک تفاہیم کا بھی ہے۔ اختلافات کے علمی و سماجی دو پہلو ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو ایک امت نہیں بنایا۔ اللہ نے اس چمن میں گلہائے رنگارنگ پیدا کئے ہیں۔ ہر شخص کو زندگی گزارنے کی آزادی دی ہے تو ہمیں بھی اس آزادی کو قبول کرکے چلنا چاہئے۔ فکر و نظر کی آزادی جب تک رہے گی تب تک یہ اختلافات مذاہب و مسالک موجود رہیں گے“۔
ان خیالات کا اظہار پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بِرج کورس میں ”اختلافات کے آداب“ موضوع پر ایک توسیعی خطبہ دیتے ہوئے کیا۔ انھوں نے کہاکہ اللہ نے انسانوں کو آفاق و انفس میں پھیلی ہوئی اپنی وحدانیت کی نشانیوں کی بنیاد پر غور و فکر کرکے زندگی گزارنے کی تعلیم دی ہے۔ انھوں نے کہاکہ ایک اختلاف فطری ہے جب کہ دوسرا اختلاف غلط ذہنیت، بغاوت اور بغض و حسد کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ اس دوسرے اختلاف کی ممانعت کی گئی ہے۔ قرآن نے جا بجا اختلاف معاندانہ کی ممانعت کی ہے۔ قرآن مصدر ہدایت بھی ہے اور مصدر وحدت بھی۔ اسی طرح رسولؐ کی ذات اقدس بھی ہے۔ آپؐ نے اپنی زندگی میں صحابہ کرام کو کچھ چیزوں میں اختلاف کی اجازت دی ہے۔ اختلافِ قرأت کو نبیؐ نے گوارا فرمایا، لہجوں کے اختلاف کو باقی رکھا لیکن قرآن لکھا تو جائے گا قریش کی زبان میں۔ ایک روایت کے مطابق آپؐ نے صحابہ سے فرمایا کہ عصر کی نماز بنی قریظہ پہنچ کر پڑھی جائے گی۔ مقصد یہ تھا کہ وہاں پہنچنے کے لئے رفتار تیز کی جائے، لیکن بعض صحابہ نے وقت ہونے پر راستے ہی میں نماز پڑھ لی اور کچھ نے نہیں پڑھی۔ دونوں گروپوں کے عمل کو آپؐ نے گوارا فرمایا۔ صحابہ کرام کے زمانہ میں بھی اختلافات کی مثالیں ملتی ہیں۔ نصوص کو سمجھنے میں اختلاف ہوسکتا ہے، غلطی بھی ہوسکتی ہے اور تنوع بھی ہوسکتا ہے۔ نصوص کے الفاظ کہیں حقیقی معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور کبھی مجازی معنی مراد ہوتے ہیں۔ کبھی لغت کا اختلاف ہوتا ہے اور ایک لفظ کے کئی معانی ہوسکتے ہیں۔
پروفیسر قاسمی نے مزید کہاکہ اسی طرح احادیث جن طریقوں سے ہم تک پہنچی ہیں ان میں بھی اختلافات پائے جاتے ہیں۔ امام مالک اپنے استنباط میں عمل اہل مدینہ کو دیکھتے تھے، امام شافعی حدیث کے مرتبہ کو ترجیح دیتے تھے اور احناف ان میں قدر مشترک کے قائل تھے۔ امام مالک نے اپنی مؤطا کو اسٹیٹ کا دستور بنانے سے منع کیا اور کہاکہ سبھی ائمہ و فقہاء کے یہاں دوسری روایات اور افتاء موجود ہیں۔ سبھی کو اپنی فہم و فراست کے لحاظ سے عمل کرنے کی اجازت ہے۔ اسی طرح سود کی حرمت کی روایات کو سبھی فقہاء نے اپنی اپنی فہم و فراست کے مطابق انطباق کیا۔ نماز کے اختلافات بھی اسی قبیل کے ہیں۔ پروفیسر قاسمی نے کہا کہ انسان اپنی خواہش کو اپنا امام بنالیتا ہے اسی لئے وہ گمراہی کی راہ پر چلا جاتا ہے۔ اگر آپ حق پر چلنا چاہتے ہیں تو اپنے نفس کے شرور سے پناہ چاہنی چاہئے۔ علم غرور و تکبر کی طرف لے جاتا ہے۔ ہمیں تعصبات کی زیریں لہروں سے نکلنا ہوگا۔
پروگرام کی صدارت جناب نسیم احمد خاں، ڈائرکٹر،بِرج کورس نے کی۔نظامت ڈاکٹر حارث بن منصور نے کی اور کلمات تشکر جناب صباح الرحمٰن، اسسٹنٹ ڈائرکٹر نے ادا کئے۔