” فلسطین تنازعہ کا واحد اور مستقل حل ایک آزاد اور خود مختار ریاست کا قیام ہے‘‘

راجدھانی دہلی کے پریس کلب آف انڈیا میں ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے زیر اہتمام فلسطین کانفرنس میں مقررین کا اظہار خیال

نئی دہلی،16نومبر :۔

غزہ میں گزشتہ ایک ماہ سے زائد عرصے سے جاری اسرائیلی جارحیت اور فلسطینیوں کے قتل عام کے خلاف عالم اسلام کی بے حسی اور اقوام متحدہ کی لاچاری  نے پوری دنیا بشمول امریکہ اور یوروپ کے شہریوں  کے  سب کو بے چین کر دیا ہے ۔ امریکہ ،فرانس اور برطانیہ کے رویہ  سے  عالمی برادری سراپا احتجاج ہے ۔وہیں  ہندوستان میں بھی ایک بڑا انصاف پسند طبقہ غزہ میں   معصوم بچوں پر اسرائیل کے ظالمانہ  کردار پر تشویش میں مبتلا ہے ۔ اور اپنے اپنے طریقے سے اس پر تشویش کا اظہار کر رہا ہے ۔ گرچہ حکومت کی جانب سے پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں لیکن متعدد تنظیموں نے اپنی سطح پر اسرائیلی بر بریت کے خلاف مظاہرہ کیا اور پروگرام کا انعقاد کر کے فلسطین کے مظلوموں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔

گزشتہ روز بدھ کو نئی دہلی کے پریس کلب آف انڈیا میں  ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے زیر اہتمام غزہ میں نسل کشی :ذمہ دار کون کے موضوع پر ایک پروگرام  کا انعقاد کیا گیا جس میں سرکردہ سماجی شخصیات دانشوروں اور رہنماؤں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا-

معروف دانشور اور دہلی یونیور سٹی کے پروفیسر اپوروانند نے کہا کہ ایسی کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم فلسطین کے ساتھ کھڑے نہ ہوں۔انہوں نے کہا ہمارا فی الفور مطالبہ یہ ہے کہ بلا تاخیر جنگ بندی ہو،کیونکہ ہر انسانی جان قیمتی ہے۔ان کاکہنا تھا کہ جنگ میں شہریوں کو یرغمال نہیں بنانا چاہئے خواہ اسرائیل ہو یا حماس یہ ضابطہ سب پر لاگو ہوتا ہے۔اپوروانند نے اسرائیل کے خلاف احتجاج کو ضروری بتایا۔

سر گرم سرکردہ رہنما نائب امیر جماعت اسلامی ہند ملک معتصم خان نے   اپنی تقریر کے دوران اسرائیل کے ہاتھوں غزہ میں نسل کشی کے محرکات و اسباب اور مغرب کے دوغلے رویہ پر تفصیل سے روشنی ڈالی،

انہوں نے کہا کہ اسرائیل و فلسطین کا تنازعہ 1948 سے جاری ہے ۔اس کی بنیاد یہ ہے کہ اسرائیل ظالم ، غاصب ، اور قابض قوت ہے اور فلسطینی مظلوم ہیں۔ عالمی برادری اور حکمرانوں کو ظالم کے خلاف اور مظلوم کے ساتھ کھڑے ہونا چاہیے ۔انہوں نے کہا کہ تاریخی اعتبار سے بھارت اور فلسطین میں ایک قدر مشترک ہےوہ یہ کہ ہم نے انگریزوں کے خلاف آزادی کی لڑائی لڑی وہیں فلسطین بھی اسرائیل سے آزادی کی جنگ لڑ رہا ہے۔بابائے قوم مہاتما گاندھی نے 1938میں تحریک آذادی فلسطین کی تائید کی تھی۔

انہوں نے زور دے کر کہا کہ فلسطین میں آزاد، خودمختار مملکت فلسطین کا قیام ہی اس تنازعہ کا مستقل حل ہے۔فاضل مقرر نے اس بات پر شدید نکتہ چینی کی کہ دہلی میں فلسطین کے حق میں احتجاج منظم کرنے کو پولیس کی جانب سے مزاحمت اور ان کے حق میں دعاؤں کو روکنے کی کوشش آئین میں دئے گئے بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہےاور یہ ناقابل قبول ہے۔

ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے صدر ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے کہا کہ ہمارا ماننا یہ ہے کہ فلسطینی عوام کی خون ریزی بند ہو-انہوں نے واضح طور پر کہا کہ ہمارے ملک بھارت کا جو رویہ فلسطین اور اسرائیل جنگ میں اب تک دیکھنے کو ملا ہے وہ اطمینان بخش نہیں۔

انہوں نے بتایا کہ وہ ابھی امریکہ سے لوٹے ہیں انہوں نے دیکھا کہ امریکی سماج جس میں یہودی بھی ہیں اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کے خلاف سڑکوں پر ہیں۔ ڈاکٹر الیاس نے دعویٰ کیا کہ حماس نے لڑائی جیت لی ہے کیونکہ جو قوم مرنے پر آمادہ ہو اسے کوئی نہیں ہراسکتا۔

معروف سماجی شخصیت جون دیال نے کہا آج اسرائیل فلسطین کے درمیان جاری جنگ کو 40 روز گزر چکے ہیں لیکن بھارت سرکار ابھی بھی خود کو نیوٹرل دکھانے کی کوشش کررہی ہے اس کے لیڈر اسرائیل کے حق میں بول رہے ہیں ہے جبکہ بھارت کی خارجہ پالیسی دو ریاستی فارمولہ کے حق میں رہی ہے بھارت کو ہمیشہ کی طرح کھل کر فلسطینی عوام کا ساتھ دینا چاہیے اس موقع پر فلسطینی سفیر نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔