فلسطینیوں کی نسل کشی کے حامی صہیونی سائنسداں کےمجوزہ پروگرام کو منسوخ کرنے کا مطالبہ

 شیو نادر یونیورسٹی اور انڈین سٹیٹسٹیکل انسٹی ٹیوٹ میں 13ا ور 14 جنوری کو نوبل انعام یافتہ صیہونی رابٹ اومن کاپروگرام،حقوق انسانی کارکنوں نے خط لکھ کر اعتراض کیا

نئی دہلی،08جنوری :۔

فلسطین میں جاری اسرائیلی نسل کشی کی دنیا بھر میں انصاف پسند طبقہ مخالفت کر رہا ہے اور اس انسانیت سوز  کارروائی کے خلاف اپنی اپنی سطح پر اپنے اپنے طریقے سے آواز اٹھائی جا رہی ہے،کہیں اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی اپیل کی جا رہی ہے تو کہیں اسرائیلی شدت پسند یہودیوں کے عوامی پروگرام میں شرکت پر پابندی عائد کر کے کی جا رہی ہے۔ وطن عزیز میں بھی متدد طریقوں سے فلسطینیوں کی حمایت کی گئی اور اسرائیل کے اقدامات کی مذمت کی گئی ۔

دریں اثنا  انسانی حقوق کے کارکنوں، ماہرین تعلیم اور سائنسدانوں کے ایک گروپ نے دہلی کی شیو نادر یونیورسٹی اور انڈین سٹیٹسٹیکل انسٹی ٹیوٹ (آئی ایس آئی) سے صیہونی نوبل انعام یافتہ رابرٹ اومن کو دی گئی دعوت کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

معروف ماہر اقتصادیات کو 13-14 جنوری 2025 کو ان دونوں اداروں کے زیر اہتمام ایک ورکشاپ میں کلیدی مقرر کے طور پر مدعو کیا گیا ہے۔ رابرٹ اومن کی مخالفت کرنے والے  دانشوروں کی تعداد 298 ہے۔

اومن کو معاشی سائنس کے میدان میں گیم تھیوری میں ان کی شراکت کے لیے 2005 کا نوبل میموریل پرائز دیا گیا تھا۔ رابرٹ اومن کو اپنی علمی مہارت کو فلسطینیوں کے حقوق کی خلاف ورزی کرنے والی اسرائیل کی پالیسیوں کو جواز فراہم کرنے کے لیے تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

رابرٹ اومن کی مخالفت کرنے والوں کا موقف ہے کہ اومن کی فلسطینیوں کی نسل کشی کی حمایت کرنے والی پالیسیوں کی حمایت اور اس کی صہیونی ذہنیت علمی اور انسانی حقوق دونوں اقدار سے مطابقت نہیں رکھتی۔

دستخط کرنے والوں میں کارکن ہرش مندر، ماہر اقتصادیات جین ڈریز، ماہر لسانیات عائشہ قدوائی اور بہت سے دوسرے شامل ہیں، جن میں سے سبھی نے فلسطین میں اسرائیل کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بڑھتی ہوئی بین الاقوامی جانچ کے درمیان اومن کو مدعو کرنے کے دو ہندوستانی یونیورسٹیوں کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

درخواست میں ” پروفیسرزفار اسٹرانگ اسرائیل” کے ساتھ اومن کے تعلقات کو اجاگر کیا گیا ہے۔ "پروفیسرز فار اسٹرانگ اسرائیل  ” ایک ایسا گروہ ہے جو "عظیم تر اسرائیل” کی وکالت کرتا ہے، جو پڑوسی ممالک سے علاقوں کے الحاق کا حوالہ دیتا ہے۔

اومن  اس سے قبل غزہ سے اسرائیل کے 2005 کے انخلاء کو اسرائیلیوں کی "نسلی صفائی” قرار دیتا رہا ہے اور فلسطینیوں کے حوالے سے اسرائیل کی پالیسیوں کی حمایت کرتا رہا ہے۔

شیو نادر یونیورسٹی اور انڈین سٹیٹسٹیکل انسٹی ٹیوٹ میں رابرٹ اومن کی آمد کے خلاف اسکالرز کی طرف سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے، "اومن کے علمی کام کو ان کے سیاسی عقائد سے الگ نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ اس نے بارہا اپنی تحقیق کو اسرائیل کی آمرانہ پالیسیوں کو درست ثابت کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔

خط میں مزید کہا گیا ہے کہ جب اومن کو نوبل انعام ملا تھا تب بھی کئی ماہرین تعلیم نے اس کی مخالفت کی تھی۔ عرضی گزاروں نے دہلی کی دو یونیورسٹیوں کو فلسطینی خودمختاری کے لیے ہندوستان کی دیرینہ حمایت کو کمزور کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

کارکنوں نے غزہ میں تعلیمی ڈھانچے کی تباہی پر بھی روشنی ڈالی اور اسے "تعلیمی قتل عام” قرار دیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ 1948 کے نکبہ کے بعد سے فلسطینی ماہرین تعلیم اور اداروں کو منظم طریقے سے نشانہ بنایا جا رہا ہے اور مبینہ طور پر غزہ کے 80 فیصد اسکول تباہ ہو گئے ہیں۔

خط میں کہا گیا ہے کہ ’’بھارت پہلے ہی اسرائیلی جابرانہ پالیسیوں کی تقلید کر رہا ہے، جس میں جبری بے دخلی، اختلاف رائے کو دبانا اور اقلیتوں کو پسماندہ کرنا شامل ہے۔

خط میں، کارکنوں نے ہندوستانی اداروں پر زور دیا کہ وہ اسرائیلی تنظیموں کے ساتھ تعاون ختم کریں اور اسرائیل کے تعلیمی اور ثقافتی بائیکاٹ کے لیے عالمی فلسطینی مہم میں شامل ہوں، اس کا موازنہ جنوبی افریقہ کے نسل پرستی کے بین الاقوامی بائیکاٹ سے کریں۔

سماجی کارکنوں کے گروپ نے اومن کی دعوت کو مسترد کرتے ہوئے یونیورسٹیوں سے عوامی اعلان کا مطالبہ کیا ہے، یہ دلیل دیتے ہوئے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی حمایت کرنے والے افراد کو ایک پلیٹ فارم فراہم کرنا تعلیمی اداروں کی سالمیت کو مجروح کرتا ہے۔ابھی تک، نہ تو شیو نادر یونیورسٹی اور نہ ہی انڈین سٹیٹسٹیکل انسٹی ٹیوٹ نے ان مطالبات پر عوامی سطح پر کوئی ردعمل ظاہر کیا ہے۔