فرقہ پرستی کے خلاف اکثریتی سماج کا میدان میں آنا ضروری

جمعیةعلماءہند کے زیر اہتمام سماجی و تعلیمی شخصیات کے اجتماع میں ایک متفقہ پلیٹ فارم بنانے کا اعلان،تشار گاندھی نے کہا کہ مسلمانوں کو ملک مخالف بنا کر پیش کیا جارہا ہے

نئی دہلی،22 اکتوبر :

مسلمانوں کے خلاف  ملک بھرمیں اکثریتی سماج میں پھیلائی گئی نفرت اب نہ صرف مسلمانوں بلکہ ملک کے لئے بھی خطرناک ہوتا جا رہا ہے۔آئے دن مسلمانوں کے خلاف صرف سماجی ہی نہیں بلکہ حکومتی سطح پر بھی کارروائیاں کی جا رہی ہیں ۔اکثریتی سماج میں پھیلی اس نفرت کو ختم کرنے اور غلط فہمیوں کو دور کرنےکی کوششوں کی جانب جمعیۃ علمائے ہند نے ایک قدم بڑھایا ہے۔

گزشتہ روز  جمعیة علماءہند کےصدر مولانا محمود اسعد مدنی کی دعوت پر دفتر جمعیة علماءہند نئی دہلی کے مدنی ہال میں ملک کی مختلف سماجی و تعلیمی شخصیات کا ایک اجتماع منعقد ہوا۔ جس میں وطن عزیز میں پیدا کرہ معاشرتی تفرقہ اور بے چینی پر تفصیل سے تبادلہ خیال ہوا۔ اس اجتماع میں گاندھی جی کے پڑپوتے  تشار ارون گاندھی سمیت کئی اہم شخصیات نے شرکت کی اور فرقہ پرستی کے خلاف متحدہ پلیٹ فارم بنانے کا اعلان کیا۔ اس سلسلے میں مزید مشورےکے بعد جلد ایک کمیٹی کا اعلان کیا جائے گا۔

مولانا محمود اسعد مدنی صدر جمعیة علماءہند نے افتتاحی کلمات میں تمام شرکاءکا شکریہ ادا کیا۔ بعدہ مہمان خصوصی تشار ارون گاندھی نے اپنے کلیدی خطاب میں مسلمانوں کی موجود ہ صورت حال پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے اس بات کی نشاندہی کی کہ دائیں بازو کا گروہ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) ، نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (این آر سی) اور وقف کا مسئلہ مسلمانوں کا مسئلہ بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔ اس کی وجہ سے حکومت عام لوگوں کی توجہ ان پالیسیوں سے ہٹانے میں کامیاب ہوتی ہے جو اقلیتوں کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ مسلمانوں کو مخالف کے طور پر پیش کرنے کی اس حکمت عملی نے دیگر اقلیتی مسائل کو بھی پس پشت ڈال دیا ہے اور تعصب کو بڑھاوا دیا ہے۔تشار گاندھی نے مستقبل کے حوالے سے سخت انتباہ جاری کیا کہ اگر منظم طور پر مسلمانوں کوعلیحدہ کرنے کی سازش جاری رہی تو یہ بالآخر سنگین تصادم کا سبب بن سکتی ہے۔ مسلمانوں اور اقلیتوں کے خلاف پالیسیاں الگ تھلگ واقعات نہیں ہیں بلکہ ایک وسیع تر حکمت عملی کا حصہ ہیں جو اقلیتوں کو حاشیے پر دھکیلنے کے لیے بنائی جا رہی ہے۔ ان امتیازی پالیسیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے قانونی اور معاشرتی سطح پر فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔

تشار گاندھی نے اپنے خطاب کے اختتام پر اجتماعی جد وجہد کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ ایسی مخصوص جماعتیں تشکیل دی جائیں جو قانونی اور سیاسی محاذوں پر اقلیتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تعصب کا مقابلہ کر سکیں۔ اگر فوری طور پر ایسا نہیں کیا گیا تو مستقبل میں ملک کو مزید گہری تقسیم اور کشیدگی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔مولانا محمود اسعد مدنی نے کہا کہ آج برادرانِ وطن کو ہمارے خلاف بھڑکایا جا رہا ہے، ہمیں سیاسی اور سماجی طور پر مٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایسی صورت حال میں سب سے اہم کردار اکثریتی طبقے کے ذمہ دار افراد کو ادا کرنا ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ غلط معلومات ان لوگوں کو بھی نقصان پہنچائیں گی جو اسے استعمال کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ آج آزادی سے سڑک پر چلنے کا حق چھین لیا گیا ہے۔ ممبئی جارہی ٹرین کے واقعے کویاد کریں جہاں ایک بزرگ پر حملہ کیا گیا اور لگاتار پیٹا گیا، مگر کسی نے آواز نہیں اٹھائی۔ بہرائچ کی صورتحال اور میڈیا کا کردار آپ سے پوشیدہ نہیں ہے۔اس مشکل ماحول میں ہمیں خود سے یہ سوال کرنا ہوگا کہ ہم کیا کر سکتے ہیں۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ مسلمانوں کو مایوسی سے بچائیں۔ اگر ہم بھی اسی جارحانہ لہجے اور طریقے کا سہارا لیں گے تو یہ ملک کے لیے اچھا نہیں ہوگا۔ اس سے نفرت کی آگ مزید بھڑکے گی۔ اس کے بجائے میں آپ سب کو دعوت دیتا ہوں کہ اس نفرت کی بھٹی کو بجھانے کے لیے آگے آئیں۔ آپ اس ملک کی اکثریت ہیں، اور یہ ملک آپ سے بڑی امیدیں وابستہ رکھتا ہے۔ مشہور ماہر معاشیات پروفیسر ارون کمار نے کہا کہ سماج کو متحد کرنے کے لیے جو کوششیں کی جانی چاہئیں، وہ نظر نہیں آرہی ہیں۔ کچھ مخصوص گروہوں کے حق میں بنائی جانے والی پالیسیاں سماجی تقسیم کو بڑھا رہی ہیں، اور اکثر اکثریت کا استعمال وسیع تر ایجنڈے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ اقتصادی عدم مساوات، بے روزگاری، اور معاشی ماڈلز نے سماج میں تناؤ پیدا کر دیا ہے۔ سماجی مفکر وجے پرتاپ سنگھ نے کہا کہ بات چیت کے دروازے سب کے لیے کھولنے کی ضرورت ہے تاکہ معاشرتی فاصلے کم کیے جا سکیں۔ ہمیں آئین کے دائرے میں رہ کر موقع تلاش کرنا چاہیے۔

پرفیسر سوربھ باجپئی مشہور مورخ جواہر لال نہرو یونیورسٹی نے متحدہ قومیت کے تناظر میں جمعیت علماء ہند کی خدمات اور اس کے نظریے کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ اس وقت دو طرح کی جدوجہد ضروری ہے: ایک سیاسی اور دوسری سماجی ، جمعیة علماءہند نے اس ڈائیلاگ سیریز کا آغاز کیا ہے، اس کو مضبوط اور منظم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سماجی جدوجہد کو بہتر طریقے سے آگے بڑھایا جا سکے۔معروف صحافی آدتیہ مینن نے کہا کہ فرقہ واریت کے خلاف کام کرنے کے لیے جمعیت علماءہند جیسی جماعتیں ہیں۔ اسی طرح غیر مسلموں کے اندر بھی ایسی مذہبی تنظیموں کا ہونا ضروری ہے جو غیر مسلم طبقات کی جانب سے ہونے والے پرتشدد اقدامات کے خلاف فوری طور پر نوٹس لیں اور اسے روکنے کی کوشش کریں۔

ماہر تعلیم ڈاکٹر جاوید عالم خان نے کہا کہ پسماندہ طبقات بشمول دلت، آدیواسی، قبائلی اور مسلمان جن مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں، انہیں مشترکہ کوششوں کے ذریعے حل کرنا ہوگا۔ ہمیں ایک ایسے پلیٹ فارم کی ضرورت ہے جہاں ان طبقات کے نمائندے اپنے تجربات شیئر کریں اور حل کی جانب آگے بڑھیں۔ڈاکٹر اندو پرکاش سنگھ نے کہا کہ آج اشتراک عمل کی سخت ضرورت ہے۔زکوة فاؤنڈیشن آف انڈیا کے چیئرمین ڈاکٹر ظفر محمود نے کہا کہ ہمیں ان مسائل کی شناخت کرنی ہوگی اور پھر ان کا جواب سوشل میڈیا اور دوسرے پلیٹ فارم سے دینا ہو گا۔ انھوں نے مذاہب کی گلوسری تیار کرنے پر بھی زور دیا اور مذاہب کے مابین تعارفی پروگرام کی اہمیت اجاگر کی۔ ان کے علاوہ مولانا حکیم الدین قاسمی ناظم عمومی جمعیۃعلماء ہند ،شری دیا سنگھ ، شری کیلاش مینا،پروفیسر مجیب الرحمن، محترمہ صبا رحمان، مولانا نیاز احمد فاروقی ،سیف علی ندوی ، شری آدتیہ مینن، مولانا امین الحق اسامہ قاسمی ، شری راکیش بھٹ، ڈاکٹر جاوید اقبال وانی،محترمہ نکیتا چترویدی،محترمہ خوشبو اختر،ابوبکر سباق ایڈوکیٹ،شری انوپم، غضنفر علی خاں، حامد علی خاں، شری شبھ مورتھی ،عسکر زیدی، شری پرشانت کمال، مولانا محمد عمر، مولانا جاوید صدیقی قاسمی، مولانا مہدی حسن عینی وغیرہ نے بھی شرکت کی اور اپنے خیالات کا اظہار کیا۔