
غزہ کے ناگفتہ بہ حالات پر اقوام متحدہ کے خلاف ناراضگی ،نیو یارک میں دفتر کے گھیراؤ کی کوشش
نئی دہلی ،27 جولائی :۔
غزہ میں جو انسانی بحران ہے اس کی تصاویر دل کو جھنجھوڑ دینے والی ہیں۔روتے بلکتے بچے ،بھوک سے تڑپ تڑپ کر مرتے معصوم بچوں کی تصاویر سے اندازہ لگایا جا سکتاہے کہ غزہ اس وقت کس انسانی بحران سے گزر رہاہے ۔ پوری دنیا میں اسرائیل کے خلاف شدید غم و غصہ پایا جارہا ہے۔ اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ ساتھ لوگوں م یں اقوام متحدہ کے خلاف بھی ناراضگی بڑھتی جا رہی ہے ۔ ان تمام بحرانی کیفیت کیلئے کہیں نہ کہیں اقوام متحدہ کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے کہ وہ اب تک اسرائیل کو اس ظلم سے باز نہیں رکھ سکا ۔ اقوام متحدہ کے خلاف غصہ ویسے بھی بڑھتا جارہا ہے کیوں کہ وہ اتنے بڑے انسانی بحران کو ٹالنے کے لئے اپنے طور پرکچھ نہیں کرپا رہا ہے۔
اسی غم و غصہ میں گزشتہ روز اقوام متحدہ کے صدر دفتر کے سامنے سیکڑوں مظاہرین نے جنگ زدہ غزہ میں بڑھتے ہوئے اسرائیل کے مسلط کردہ قحط جیسے حالات اور خصوصاً بچوں کی حالت زار پر عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کیلئے شدید احتجاج کیا۔ یہ لوگ اقوام متحدہ کے صدر دفتر کو گھیرنے کی کوشش کررہے تھے تاکہ وہاں کے حکام کو خواب غفلت سے جگایا جاسکے لیکن سیکوریٹی ایجنسیوں نے ایک حد تک انہیں جانے دینے کے بعد بھیڑ کو منتشر کردیا۔ امدادی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ اگر فوری عالمی مداخلت نہ کی گئی تو غذائی قلت جان لیوا شکل اختیار کر سکتی ہے۔مظاہرین نے وہاں کھڑے رہ نعرے لگاتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ اقوام متحدہ کوئی فیصلہ کن کارروائی کرے ۔ یا تو وہ غزہ کی ناکہ بندی کھلوائے اور وہاں امداد پہنچانے کا انتظام کرے یا پھر اسرائیلی قیادت کو سلاخوں کے پیچھے ڈھکیلنے کا انتظام کرے۔
اس مظاہرے میں شامل ناس جوزف(۲۷) جو نیویارک میں فلسطینی یوتھ موومنٹ کی ترجمان ہیں، نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’غزہ سے جو تصاویر آرہی ہیں وہ ناقابلِ بیان ہیں ۔بچوں، عورتوں اور مردوں کو سڑکوں پر بھوک سے نڈھال اور گرتا ہوا دیکھنا ناقابلِ برداشت ہے۔ اگرچہ فوری امداد ضروری ہے لیکن ایسے سیکڑوں، شاید ہزاروں افراد ہیں جن کیلئے یہ بھی ناکافی ہوگی۔ ان لوگوں کو فوری طورپر اسپتال منتقل کرکے کئی ہفتوں تک نگرانی میں رکھنا پڑے گا۔‘‘ انہوں نے عالمی برادری، بالخصوص فرانس، برطانیہ اور امریکہ پر زور دیا کہ صرف زبانی مذمت کافی نہیں اسرائیل پر اسلحہ اور تجارتی پابندیاں عائد کی جائیں اور اسرائیلی سفیر کو ان ممالک سے ملک بدر کیا جائے۔
اس مظاہرے میں شامل یہودی مذہبی رہنما ربی ڈیوڈ فیلڈ مین نے شدید رنج کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم چھوٹے بچوں کو بھوک سے مرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ یہ ناقابلِ قبول ہے۔ دنیا آہستہ آہستہ جاگ رہی ہے بلکہ کوئی کارروائی ہی نہیں کررہی ہے۔ باقی ممالک کو بھی فوری قدم اٹھانا ہوگا۔‘‘
نیویارک میں اقوام متحدہ کے صدر دفتر کے باہر یہ سیکڑوںفلسطین حامی مظاہرین جمع ہوئے تھے۔ ان کی وجہ سے صدر دفتر کی جانب جانے والی سڑک پوری طرح سے جام ہو گئی تھی ۔ چونکہ انتظامیہ کو اندازہ تھا کہ یہاں بڑی تعداد میں لوگ پہنچیں گے اس لئے انہوں نے پہلے ہی ٹریفک کو دوسرے راستوں پر موڑ دیا تھا ۔