غزہ کی تباہی کے بعد فلسطینیوں کی نقل مکانی سےپڑوسی عرب ممالک  خوف زدہ

 غزہ پٹی میں بے گھر ہونے والے  فلسطینی مصر اور اردن کے لئے مسئلہ پیدا ہونے کا خطرہ منڈلا رہا ہے   

غزہ ،29اکتوبر :۔

دو ہفتے سے بھی زائد عرصے سے جاری غزہ اور اسرائیل کی جنگ میں انسانی جانوں کا جس قدرضیاع ہوا ہے، اس نے پوری دنیا کو فکر مند کر دیا ہے ۔خاص طور پر عرب ممالک کے لئے تشویش میں اضافہ ہو گیا ہے ۔75 سال قبل ہونے والی تباہی کا منظر ان کے سامنے نظر آنے لگا ہے ۔ بے گھر ہونے والے فلسطینی کہاں جائیں گے؟ان کو سر چھپانے کے لئے جگہ کہاں ملے گی؟ اسرائیل کے خلاف کوئی بھی اقدام کرنے میں ناکام عرب ممالک اب اپنی اس فکر میں مبتلا ہیں اور حکمراں خوف زدہ ہیں ان کےغزہ خالی کرنے والی لاکھوں فلسطینیوں کی نقل مکانی سے وہ اپنی زمین کیسے محفوظ رکھیں گے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اب بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کے لیے خود غزہ پٹی کے اندر لگائے جانے والے خیمے بھی ماضی کے تاریک ادوار کی یاد تازہ کر رہے اور عرب ممالک اور عوام کو خوفزدہ کر رہے ہیں۔

غزہ میں مقیم انسانی حقوق کے گروپ المیزان کے بقول، ”نقبہ کا آغاز اسی طرح ہوا تھا۔‘‘ اس گروپ کی طرف سے علاقائی شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے سمجھا یہ جا رہا ہے کہ اسرائیل غزہ پٹی کے ساحلی علاقے کو خالی کرانے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔

نقبہ جس کا مطلب ”تباہی‘‘ ہے کو عرب دنیا 75 سال قبل ریاست اسرائیل کے قیام کی وجہ سے ہونے والی جنگ میں 760,000 فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی یا بے گھر ہو جانے کا حوالہ کہتی ہے ۔غزہ میں حقوق انسانی کے گروپ المیزان کا کہنا ہے، ”نقبہ کا آغاز اسی طرح ہوا تھا،‘‘ جو علاقائی شکوک و شبہات کی عکاسی کرتا ہے کہ اسرائیل ساحلی علاقے کو خالی کرانے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ غزہ پٹی زیادہ تر ان فلسطینی پناہ گزینوں اور ان کی اولادوں کی آبادی والا علاقہ ہے، جو گزشتہ دو ہفتوں سے جاری اسرائیلی بمباری کے سبب انتہائی کسمپرسی میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ عسکریت پسند تنظیم حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اس جنگ میں غزہ میں 5,000 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

زمینی فوجی حملے سے قبل علاقے کے شمال کو خالی کر دینے کے اسرائیلی انتباہ نے گہرے تاریخی خدشات کو جنم دیا ہے، غزہ کے دس لاکھ باشندے پہلے ہی اپنے گھروں سے بے دخل ہو چکے ہیں۔ غزہ سے نکلنے کا واحد ممکنہ راستہ جس پراسرائیل کا کنٹرول نہیں، وہ مصر کے ساتھ رفح بارڈر کراسنگ ہے۔ دریں اثناء جب اسرائیل نے امریکی ثالثی میں طے پانے والے معاہدے کے تحت اس علاقے میں فلسطینیوں پر بمباری کا سلسلہ روکا، تب مصر نے رفح کے راستے غزہ میں امدادی اشیاء سے لدے ٹرکوں کو جانے کی اجازت دے دی ۔ لیکن دوسری طرف پناہ گزینوں کی امداد کے لیے کوئی ہوائی جہاز ابھی تک وہاں نہیں پہنچا۔

مصر کو خدشہ ہے کہ مصری دروازے کھولنے سے فلسطینیوں کو زبردستی بڑے پیمانے پر بے دخل کرنے کے اسرائیلی منصوبوں کو مزید تقویت مل سکتی ہے، جن میں سے بہت سے اب بے گھر ہیں، کھلے آسمان تلے سو رہے ہیں یا اقوام متحدہ کے خیموں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔