غزہ میں معصوم بچے شہید ہورہے ہیں مگر دنیا کے انسانوں کاضمیر مر رہا ہے

ہم  روزہ رکھ کرغزہ کے مسلمانوں کے درد و الم اور بھوک و پیاس کی شدت کو محسوس کریں ،ان کیلئے  خصوصی دعاؤں کا اہتمام کریں،جماعت اسلامی ہند کے کیمپس میں واقع مسجد اشاعت الاسلام میں خطبہ جمعہ میں امیر جماعت سید سعادت اللہ حسینی کا تمام مسلمانوں سے دردمندانہ اپیل

دعوت ویب ڈیسک

نئی دہلی:۔

غزہ میں معصوم بچے اور خواتین بھوک ،پیاس سے تڑپ تڑپ کر شہید ہو رہے ہیں مگر  اس غزہ میں دنیا بھر کے سات سو کروڑ انسانوں کا ضمیر مر رہا ہے،اسرائیلی  بمباری میں بنی نوع انسان کی عزت نفس،اخلاقی حس اور جوہر انسانیت جل کر خاک ہو رہا ہے۔مذکورہ خیالات کا اظہار جماعت اسلامی ہند کے مرکزی کیمپس میں واقع مسجد اشاعت الاسلام میں امیر جماعت سید سعادت اللہ حسینی نے شہر عزیمت کےمظلوموں کے نام موضوع پر خطبہ جمعہ کے دوران کیا۔انہوں نے غزہ کی حالت زار پرانتہائی درد و تکلیف کااظہار کرتے ہوئے دنیا کے تمام امن پسندوں سے اسرائیل کے ظلم و بربریت کے خلاف کھڑے ہونے کی اپیل کی۔

انہوں نے حاضرین جمعہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں حالات انتہائی مایوس کن ہو چکے ہیں،انسانی بحران گہرا ہو گیا ہے،تاریخ میں چنگیز خان اور تاتاریوں کے مظالم اور ان کی خونخواری ،ان کی وحشت ناکیاں مشہور ہیں لیکن یہ ہمارے زمانے کے فرعون،ہمارے زمانے کے چنگیز اور ہلاکو  خان اور  تاتاریوں کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ایک لاکھ سے زیادہ عام شہری شہید کئے جا چکے ہیں۔بھوک اور پیاس سے معصوم بچے روزانہ مر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ انسانی تاریخ کی پہلی جنگ ہے جس میں بزدل ظالموں نے اپنا اصل نشانہ معصوم بچوں کو بنا رکھا ہے۔اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کمیشن کے مطابق شہید ہونے والوں میں 70 فیصد بچے اور خواتین ہیں۔یہ پہلی جنگ ہے جس میں بھوک اور پیاس کو اس بڑے پیمانے پر ہتھیار بنایا گیا ہےاور بھوک سے پیاس سے تڑپا کر معصوم شہریوں کو ،بچوں کو شہید کیا جا رہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ ساری دنیا کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ بد ترین جنگی جرم ہے ۔اس جنگ میں عام شہریوں کو ،اساتذہ کو،صحافیوں کو گھات لگا کر مارا جا رہا ہے،ریلیف کیمپوں کو،اسپتالوں کو تباہ کیا جا رہا ہے۔انسانی تاریخ نے سفاکی کی وحشت کی درندگی کی اس قدر المناک تصویریں اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی ،یہ مناظر خون کے آنسو رلاتے ہیں لیکن ہمیں قرآن پر یقین ہے کہ جو لوگ شہید ہوتے ہیں وہ اپنی جانوں کو اللہ سے جنت کے بدلے سودا کرتے ہیں  ۔

انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ صرف صیہونیوں کا نہیں ہے بلکہ تمام عالمی برادری کا،تمام مسلمانوں کا،تمام دنیا کے حکمرانوں کا ہے کہ اتنا بڑا قتل عام پوری دنیا کے سامنے ہو رہا ہے اور انسانوں کی بے حسی بڑھتی جا رہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ یہ غزہ کے دو ملین شہریوں پر حملہ نہیں ہے ،بلکہ سات سو کروڑ انسانوں کے ضمیر پر حملہ ہے،انسانی حس پر حملہ ہے۔غزہ میں تو معصوم شہید ہو رہے ہیں لیکن تمام انسانوں کا ضمیر مر رہا ہے ، یہ مسئلہ صرف فلسطین کا مسئلہ نہیں ہے ،صرف عرب کا مسئلہ نہیں ہے،یہ پوری انسانیت کی بقا کامسئلہ ہے،اس مسئلے سے طے ہوگا کہ جوہر انسانیت زندہ رہے گا کہ نہیں۔آپ غور کیجئے کہ اس درندگی نے اسنانیت کو کس مقام پر پہنچا دیا ہے۔

غزہ میں فلسطینیوں کے صبر کا امتحان ہو رہا ہے اس میں ہو کامیاب ہو رہے ہیں ۔ غزہ جدید تہذیب کا آخری اخلاقی امتحان ہے۔اس متحان میں ہم سب ساڑے چھ بلین انسان نا کام ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یقیناًیہ قبلہ اول کی بازیابی کی جنگ ہے  لیکن بات صرف اتنی نہیں ہے ،فلسطین کے لوگ صرف اپنی لڑائی نہیں لڑ رہے ہیں ،بلکہ وہ ساری انسانیت کی لڑائی لڑ رہے ہیں،وہ ہم سب کے محسن ہیں ،وہ ساری انسانیت کے محسن ہیں۔

اس موقع پر امیر جماعت نے غزہ کے شہیدوں کے  تین بڑے احسانات  شمار کرائے ۔ انہوں نے کہا کہ پہلا احسان یہ ہے کہ ہمارے فلسطین کے یہ مظلوم بھائی ،معصوم بیٹیاں اور بیٹے دنیا کے سارے کمزور ممالک  کے باشندوں کی حفاظت کر رہے ہیں،استعماریت کے یلغار کو روکے ہوئے ہیں۔یہ ہمارے زمانے کے فرعون،عالمی سرمایہ دار ،وہ ساری دنیا کو کنٹرول کرنا چاہتے ہیں۔پوری دنیا کو غلام بنانا چاہتے ہیں۔

غزہ کی مزاحمت ان عالمی طاقتوں کی مزاحمت ہے، اس اجارہ داری کے خلاف مزاحمت کا آخری قلعہ ہے غزہ۔اس قلعہ کا  سقوط کوئی معمولی حادثہ نہیں ہوگا۔یہ انسانیت کا سقوط ہوگا۔یہ باندھ ٹوٹے گا تو ساری انسانیت کو بہا لے جائے گا۔

دوسرا احسان یہ ہے کہ فلسطینیوں نے ہمارے عہد کے ظالموں کو بے نقاب کیا ہے ۔ان کے چہروں پر پڑی معزز نقابیں اتار دی ہیں۔ان ظالموں نے مساوات ،جمہوریت ،تہذیب ،ترقی کے پر فریب نعروں کے ساتھ وہ میدان میں آئے تھے ،ساری دنیا کو دھوکے میں رکھا تھا ۔فلسطینیوں نے ان کا نقاب اترا دیا اور بتایا کہ یہ لوگ کتنے مفاد پرست،ظالم اور انسانیت کے دشمن ہیں۔

تیسرا احسان یہ ہے کہ فلسطینیوں نے اپنے صبر و استقامت سے پوری دنیا میں بے نظیر بیداری پیدا کر دی ہے ۔جو اب سے پہلے سوچا نہیں گیا تھا۔آج کروڑوں لوگ فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہیں،یوروپ کے ممالک میں احتجاج ہو رہا ہے۔انسانی ضمیر کی یہ بیداری دنیا میں بڑی تبدیلیوں کا ذریعہ بنے گا۔

غزہ میں فلسطینیوں کے صبر کا امتحان ہو رہا ہے اس میں وہ کامیاب ہو رہے ہیں ۔ غزہ جدید تہذیب کا آخری اخلاقی امتحان ہے۔اس متحان میں ہم سب ساڑے چھ بلین انسان نا کام ہیں۔   یقیناًیہ قبلہ اول کی بازیابی کی جنگ ہے  لیکن بات صرف اتنی نہیں ہے ،فلسطین کے لوگ صرف اپنی لڑائی نہیں لڑ رہے ہیں ،بلکہ وہ ساری انسانیت کی لڑائی لڑ رہے ہیں،وہ ہم سب کے محسن ہیں ،وہ ساری انسانیت کے محسن ہیں۔

ان حالات میں ہماری کیا ذمہ داریاں ہیں۔اس ظلم پر ہم سب کے دل مغموم ہیں ،ہم اس ظلم و بربریت کو روکنا چاہتے ہیں۔ہم اپنے ملک کے حکمرانوں کو جھنجھوڑ رہے ہیں کہ اس ظلم کی لڑائی کے خلاف کھڑے ہوں۔ہم مسلم حکمرانوں سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ یہ وقت فارن پالیسی چلانے کا،مسلکی اختلاف کا نہیں ہے ،یہ وقت انسانیت کو بچانے کا ہے،یہ وقت سچائی کی طرف اپنا پلڑا جھکانے کا  حکمراں اپنی ذمہ داری ادا کریں،زبانی بیان بازیوں سے آگے بڑھیں اور ظالم کا ہاتھ پکڑیں اور مظلوموں کی داد رسی کریں۔

انہوں نے کہا کہ اپنے اندر غزہ کے مظلومین کا درد پیدا کیجئے،ان کی تکلیف کو محسوس کیجئے ۔اس دوران انہوں نے حاضرین جمعہ سے ایک درد مندانہ اپیل کی اور کہا کہ  میں اپیل کرتا ہوں کہ آنے والے اتوار کوپیر کو روزہ رکھئے اور اس بھوک کو کسک کو اور تکلیف کومحسوس کیجئے جس سے ہمارے ہزاروں بھائی چھوٹے چھوٹے بچے دو چار ہیں۔ ایک سال کے دو سال کے معصوم شیرخار بچے دو چار ہیں۔ اُس پیاس کو محسوس کیجئے جس سے تڑپ تڑپ کر لوگ شہید ہو رہے ہیں۔” ۔دوسری چیز ان کے لئے سچے دل سےدعا کیجئے، وہ دعا جو تڑپ کر دل سے نکلتی ہےاور عرش تک جاتی ہے ۔ان کے لئے صدقہ کیجئے۔

تیسراا ہم کام اس مسئلے کے تعلق سے بیداری پیدا کیجئے،یہ ذلت کی نا مرادی کی انتہا ہوگی کہ 2025 میں بھی کوئی مسلمان فلسطین کے مسئلے کی گہرائی سےنا واقف  رہے۔فلسطین کی تاریخ اور اس کے حالات سے واقفیت پیدا کیجئے۔ پڑوسیوں کو اس مسئلے کے تعلق سے بیدار کریں ۔انہوں نے اس موقع پر اہل وطن کے ذہنوں میں فلسطین کے مسئلے کے تعلق سے غلط فہمیوں کو دور کرنے اور اصل حقیقت سے واقفیت کرانے کی اپیل کی۔انہوں نے کہا کہ ہمارا ملک برسوں تک  فلسطینیوں کی طاقت کا ایک اہم مرکز رہا ہے ۔یہ ہمارے ملک کے لئے بھی ایک اہم موقع ہے وہ اس مسئلے پر دنیا کی سر براہی اور لیڈر شپ انجام دے سکتا ہے ۔لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ اس ملک کے برادران وطن میں بیداری پیدا کی جائے۔

چوتھی چیز سب سے اہم یہ ہے کہ ہم غزہ سے کے مظلوموں سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔جس طرح غزہ کے مظلومین اتنی ظلم و بربریت کے باوجود اصولوں پر قائم ہیں  یہ بڑی قربانیاں  د رہے ہیں۔غزہ ایک شہر کا نام نہیں ہے ،ایک تنازعہ اور جنگ کا نام نہیں ہے ،غزہ ایک اصول کا نام ہے ۔ غزہ نے ہمیں بتایا کہ استقامت کسے کہتے ہیں،صبر کسے کہتے ہیں۔انہوں نے ہیں سکھایا ہے کہ جب آگ برس رہی ہو،بھوک و پیاس کا غم ہوایسے قیامت خیز لمحوں میں بھی ایمان کی حفاظت کی جا سکتی ہے ،بڑی سے بڑی مصیبتوں میں بھی اپنے اصولوں پر قائم رہا جا سکتاہے ۔یہ اصل پیغام ہے جو دنیا بھر کے کروڑوں مسلمانوں کے لئے غزہ کے کھنڈروں سے بلند ہو رہا ہے ۔

اخیر میں انہوں نے کہا کہ تو آئیے !ہم صرف ماتم نہ کریں،شہدا کا ماتم نہیں کیا جا تا ،اس سے زندگی کشید کی جاتی ہے، ان سے استقامت ،صبر اور اصولوں پر جم جانے کا سبق حاصل کریں۔ اسے اخلاقی انقلاب کا ذریعہ بنائیں۔اسے امت کی نشاۃ ثانیہ کا ذریعہ بنائیں۔