غزہ میں جنگ بندی کا معاملہ، اسرائیلی وفد سر گرم، 3 ہفتوں میں معاہدے کا امکان
غزہ ،05 جولائی :۔
حماس اور اسرائیل کے درمیان غزہ میں جاری جنگ نے تباہی کا ہولناک منظر پیش کیا ہے۔ایک لمبے عرصے سے جنگ بندی کی کوششوں کا سلسلہ جاری ہے مگر کسی طور راحت کی امیدیں نظر نہیں آ رہی ہیں ۔ایک بار پھر جنگ بندی کی کوششیں شروع ہو ئی ہیں اور معاہدے کے امکانات روشن ہوئے ہیں ۔
حماس کی جانب سے غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے حوالے سے اپنا ردعمل ثالثوں تک پہنچانے کے اعلان کے بعد امید یں روشن ہو گئی ہیں ۔ جمعرات کو اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے دفتر نے تحریک حماس کی تجاویز پر تبادلہ خیال کے لیے سکیورٹی کابینہ کے اجلاس کا انعقاد کیا۔ اس کے بعد نیتن یاہو نے قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے پر تفصیلی بات چیت شروع کرنے کے لیے ایک وفد بھیجنے سے بھی آگاہ کردیا۔
نیتن یاہو کے دفتر نے اطلاع دی ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نے امریکی صدر بائیڈن کو مطلع کیا ہے کہ انہوں نے قیدیوں کے حوالے سے مذاکرات جاری رکھنے کے لیے ایک وفد بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے جس کی سربراہی موساد کے سربراہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ تمام اہداف حاصل کرنے تک جنگ کو ختم نہیں کریں گے۔ مذاکرات کس جگہ ہو رہے ہیں، اس کا مقام نہیں بتایا گیا۔
دوسری طرف وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ بائیڈن نے نیتن یاہو کے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے کہ اسرائیلی مذاکرات کاروں کو جنگ بندی معاہدے تک پہنچنے کی کوشش میں امریکی، قطری اور مصری ثالثوں سے مل کر معاملہ طے کرنے کی اجازت دی جائے۔ بیان میں کہا گیا کہ دونوں رہنماؤں نے حماس کی جانب سے حالیہ ردعمل پر تبادلہ خیال کیا۔ ’’العربیہ‘‘ کے نامہ نگار نے بتایا ہے کہ موساد کے سربراہ اور اسرائیلی وفد قطر کے وزیراعظم سے ملاقات کے لیے دوحہ جائیں گے۔
دریں اثنا یہ امید ظاہر کی گئی ہے کہ اسرائیل میں 3 ہفتوں کے اندر غزہ کے حوالے سے کسی معاہدے تک پہنچنے کے امکان کے بارے میں امید موجود ہے۔ رپورٹ کے مطابق حماس کی جانب سے ڈیل کی پیشکش کا جواب دینے کے ایک دن بعد اسرائیل میں یہ امید ہے کہ دو یا تین ہفتوں میں یرغمالیوں کے معاہدے تک پہنچنا ممکن ہے تاہم یہ آسان نہیں ہے۔