
غزہ میں بھوک سے تڑپتے بچوں کیلئے مصری نوجوان کا ’الم انگیز ‘ قدم
پلاسٹک کی خالی بوتلوں میں غذائی اشیا بھر کر سمندر کے ذریعہ غزہ کے بچوں تک پہنچانے کی ناکام کوشش کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل
دعوت ویب ڈیسک
نئی دہلی ،26 جولائی :۔
غزہ میں اسرائیلی ظلم و بربریت انتہا کو پہنچ چکی ہے،ہر دن بھوک سے تڑپتے بچوں کی موت نے دنیا کو ہلاک رکھ دیاہے ۔غزہ کے معصوم بچوں کیلئے اسرائیل نے غزہ کو جہنم بنا دیا ہے ۔پہلےاسرائیل نے پانی اور بجلی منقطع کر کے تڑپایا اور پھر لگا تار میزائل حملوں سے بیس لاکھ غزہ کے باشندوں کے سروں سے چھت چھین لی اور اب ایسی ناکہ بندی کی ہے کہ بچے اور جوان سب بھکمری کے شکار ہیں،تل تل کر مرنے پر مجبور ہیں ۔ہر دن بھوک سے تڑپتے بچوں کی اموات کی خبروں نے سینوں میں دھڑکتا دل رکھنے والوں کو بے چین کر دیا ہے ۔بھوک سے تڑپتے اور مرتے بچوں کی تصویروں نے آنکھیں نم کر دی ہیں اور دل کو تڑپا دیئے ہیں ۔ ہاتھ بے اختیار آسمان کی طرف اٹھ جاتے ہیں اور لب غزہ کے بچوں کے حق میں دعاؤں کیلئے ہلنے لگتے ہیں۔
حالیہ دنوں میں ایک انتہائی درد انگیز اور الم سے لبریز ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہا ہے جس میں ایک مصری نوجوان پلاسٹک کی خالی بوتلوں میں آٹا چاول اور دیگر غذائی اشیا بھر کر سمندر میں پھینک رہا ہے ۔بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ نوجوان ذہنی طور پر معذور ہے اور معذوری کی حالت میں غزائی اشیا کو سمندر میں ڈال رہاہے لیکن اس کے الفاظ دل کو چیر دینے والے ہیں ،مسلم حکمرانوں اور بادشاہوں کو آئینہ دکھانے والے ہیں اور غزہ کے ظلم و بربریت پر خاموش رہنے والوں کے ضمیر کو جھنجھوڑ دینے والے ہیں در اصل یہ نوجوان بھوک سے تڑپ رہے غزہ کے بچوں کیلئے غذائی اشیا بوتلوں میں بھر کر سمندر کے ذریعہ ان تک پہنچانے کی ناکام کوشش کر رہا ہے ۔یہ نوجوان ساتھ میں دعائیں کر رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ سمندر کی لہروں کے ذریعہ یہ غذائی اشیا غزہ کے بھوکے بچوں تک پہنچا دے ۔اور ساتھ ہی نوجوان معافی اور معذرت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میرے بس میں یہی ہے میں یہی کر سکتا ہوں۔غذائی اشیا سے بھرے بوتل سمندر کے حوالے کرتے ہوئے نوجوان کہتا ہے کہوہ کہہ رہا ہے: بھائیوں اور بہنوں ہمیں معاف کر دیں۔ہم بطور عام شہری آپ کے لیے کچھ نہیں کر سکتے،یہ بوتل آپ کے جنت میں داخل ہونے کی وجہ ہو سکتی ہے۔اور دعا بھی کرتا ہے کہ رب کریم جیسا کہ آپ نے نوح کو سمندر میں بڑی لہروں کے درمیان حفاظت کے ساتھ پہنچایا اسی طرح (ان غذائی اشیا کو) غزہ کے لوگوں تک پہنچا دیں۔
واضح رہے کہ حالیہ دنوں میں غذائی قلت کے سبب اسپتالوں میں بچے دم توڑ رہے ہیں،ڈاکٹر مایوس ہیں ۔ہر دن بچے بھوک سے مر رہے ہیں ۔امدادی کارکنوں اور صحت کے عملے کا کہنا ہے کہ اس ماہ، غزہ کے 20 لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کے درمیان پیدا ہونے والی بھوک نے بچوں کی اموات میں اضافہ کر دیاہے۔ مارچ سے اسرائیل کی ناکہ بندی کی زد میں نہ صرف بچے – عام طور پر سب سے زیادہ کمزور – شکار ہو رہے ہیں بلکہ بالغ افراد بھی بھوک و افلاس کے سبب موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ غزہ میں اس وقت بھوک کی شدت اور غذائی اشیا کے فقدان نے لوگوں کو زندہ لاش میں تبدیل کر دیاہے ۔
غزہ کی وزارت صحت نے بتایا کہ گزشتہ تین ہفتوں میں، کم از کم 48 افراد غذائی قلت سے متعلق وجوہات کی وجہ سے ہلاک ہوئے، جن میں 28 بالغ اور 20 بچے شامل ہیں،اگر غزہ میں خاطر خواہ امداد نہیں پہنچائی گئی تو حالات مزید بدتر ہو جائیں گے اور آنے والے دنوں میں غزہ بھوک سے تڑپتے بچوں اور خواتین کا قبرستان بن جائے گا۔