غریب مسلمانوں پر حملہ کرنے والا ہشٹری شیٹر پنکی چودھری گرفتار،این ایس اے لگانے کی تیاری
بڑے پیمانے پر ویڈیو وائرل ہونے اور چوطرفہ تنقید کے بعد یو پی پولیس کارروائی پر مجبور ہوئی،ماضی میں دھمکیوں پرکوئی کارروائی نہیں ہوئی
نئی دہلی ،11 اگست :۔
بالآخر دنیا بھر میں حزیمت اور چوطرفہ تنقید کے بعد یو پی پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے بنگلہ دیشی کہہ کر غریب مسلمانوں پر حملے کرنے والے پنکی چودھری کو گرفتار کر لیا ہے۔ پنکی چودھری کے ساتھ بسنت کنج کے رہنے والے بادل عرف ہریوم ولد ہربھجن سنگھ کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔ ہندو رکشا دل کے کارکنوں پنکی چودھری کی قیادت میں گزشتہ روز غازی آباد میں غریب جھگی بستی والوں کو بنگلہ دیشی کہہ کر لاٹھیوں سے بے رحمی سے مارا اور پیٹا تھا اور ان کی جھگیوں میں آگ لگا دی تھی ۔
اس واقعہ کا ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پولس حرکت میں آئی اور ہندو رکشا دل کی صدر پنکی چودھری اور 15-20 نامعلوم لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کر لیاتھا۔ لیکن ہفتہ کی دوپہر تک کسی کو گرفتار نہیں کیا تھا ۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پولیس ویڈیو کے وائرل ہونے کا انتظار کر رہی تھی ۔ کیونکہ جس وقت یہ رکشا دل کے غنڈے غریبوں کی جھگیوں پر حملے کر رہے تھے اور ان کو گالیاں دے کر مار پیٹ رہے تھے پولیس موجود تھی ۔ ان غنڈوں نے پولیسکی موجودگی میں نعرے بازی بھی کی مگر پولیس نے اس وقت کوئی کارروائی نہیں کی ۔ جب بڑے پیمانے پر ویڈیو وائرل ہوا اور چو طرفہ پولیس کی تنقید ہوئی تو پولیس نے بالآخر کارروائی کرتے ہوئے گرفتاری کی ۔ پنکی چوہدری کے خلاف پہلے ہی 16 مقدمات درج ہیں اور وہ صاحب آباد تھانے کی ہسٹری شیٹر ہے۔
خیال رہے کہ اس نے پہلے دھمکی دی تھی کہ اگر بنگلہ دیش میں ہندوؤں پر حملے بند نہ ہوئے تو وہ غازی آباد میں مقیم بنگلہ دیشیوں کو وہاں سے نکال دیں گے۔ اس دھمکی کی ویڈیو بھی وائرل ہوا لیکن پولیس نے تین دن میں کوئی کارروائی نہیں کی۔ اس غفلت کا نتیجہ جمعہ کی رات آٹھ بجے ظاہر ہوا۔ یہ بات بھی حیران کن ہے کہ حملہ آور حملے کی اطلاع ملنے پر پہنچی پولیس کے سامنے بھی نعرے لگاتے رہے۔ پولیس نے موقع سے کسی کو حراست میں نہیں لیا۔
غازی آباد پولیس نے مدھوبن باپودھم تھانے میں انڈین جسٹس کوڈ کے تحت بغاوت، حملہ، کسی خاص مذہب پر تبصرہ، مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے اور دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔ اب پولیس نے نیشنل سیکیورٹی ایکٹ کے تحت کارروائی کے لیے فائل کھول دی ہے۔ پنکی چودھری کے خلاف دہلی میں بھی کئی مقدمات درج ہیں۔