عمر خالد!قید وبند کے ایک ہزار دن مکمل،رہائی کے لئے آواز بلند

پریس کلب آ ف انڈیا میں ’جمہوریت ،اختلاف رائے اور سنسر شپ کے عنوان سے اہل خانہ اور ساتھیوں نے تقریب کا اہتمام کیا،سینئر صحافی رویش کمار،رکن پارلیمنٹ منوج جھا سمیت متعد اہم شخصیات کی شرکت

نئی دہلی،10جون:۔

دہلی فسادات معاملے میں گرفتار جے این یو کے سابق طالب علم رہنما عمر خالد کو آج جیل میں ایک ہزار دن مکمل ہو گئے ۔اس موقع پر ان کے اہل خانہ کے ساتھ ان کے ساتھیوں ،دوستوں ،سیاسی رہنماؤں اورملک کے دانشور طبقہ نے  عمر خالد کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے ’فری عمر خالد‘ایک تحریک شروع کی ہے ۔ سوشل میڈیا پر عمر خالد کی رہائی کا مطالبہ کرنے والوں میں سینئر صحافی ،سماجی کارکن ،سیاسی رہنمااور طلبہ رہنما کی بڑی تعداد شامل ہے ۔

یاد رہے کہ عمر خالد کو 13سمبر2020 میں دہشت گردی کے قانون یو اے پی اے کے تحت گرفتار کیاگیا تھا۔ ایک سازشی کیس میں مقدمہ درج کر کے2020 میں ہوئے دہلی میں مسلم مخالف فساد بھڑکانے کا الزام عائد کیا گیا ۔عمر خالد کو شہریت ترمیمی قانون ( سی اے اے ) کی مخالفت  میں  پر امن احتجاج کی قیادت کرنے کے لئے بھی نشانہ بنایا گیا۔

دریں اثنا عمر خالد کے ایک ہزار دن جیل کی سلاخوں میں مکمل ہونے کے موقع پر پریس کلب آف انڈیا میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا ۔ یہ تقریب ’جمہوریت، اختلاف رائے اور سنسرشپ‘ کے زیر عنوان تھی۔اس اجتماع میں آر جے ڈی کے رکن پارلیمنٹ منوج جھا، عمر خالد کے والد  سید قاسم رسول الیاس، معروف ماہر تعلیم پربھات پٹنائک، سینئر صحافی رویش کمار، سپریم کورٹ کے وکیل شاہ رخ عالم سمیت  متعدد قابل ذکر شخصیات نے شرکت کی اور خطاب کیا  ۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے سینئر صحافی رویش کمار نے کہا کہ ’’یہ انتہائی مایوس کن بات ہے کہ   ایک انتہائی باصلاحیت اور قابل طالب علم، جس کے پاس ڈاکٹریٹ کی ڈگری ہے،اسے حکومت گودی میڈیا کی مدد سے غیر منصفانہ طور پر دنیا اور ملک کے سامنے غدار قرار دیا ہے ۔

انہوں نے مزید کہا: "خالد کی ایک ہزار دنوں کی طویل قید کے باوجود آج اس تقریب میں ان کے چاہنے والوں کی خاطر خواہ تعداد اس بات کا ثبوت ہے کہ عمر خالد کی جدو جہد لوگوں کی یادداشت میں زندہ ہے ۔رویش کمار نے کہا کہ خالد اس طویل مدت کے دوران ضمانت سے محروم رہے، متعدد سابق ججوں اور حتیٰ کہ سپریم کورٹ کی طرف سے ایک ملزم فرد کے لیے ذاتی آزادی کے بنیادی اصول کو برقرار رکھنے پر زور دینے کے باوجود  عمر خالد کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔

رویش کمار نے مزید کہا کہ   ایک وقت آئے گا جب ایک رات عدلیہ کا ضمیر جاگ جائے گا، اور یہ سمجھے گا کہ قانون کے ہاتھ ’’صرف لمبے‘‘ نہیں ہیں بلکہ ’’خون سے رنگے ہوئے‘‘ بھی ہیں جب حکومت اور سیاست دانوں کے ہاتھوں اس کا غلط استعمال ہو رہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ   اگر حکومت صرف عمر خالد کی پی ایچ ڈی پڑھ لے تو انہیں پتہ چل جائے گا کہ خالد کس قسم کا شخص ہے اور وہ کس طرح کے خیالات اور  نظریات کا حامل ہے ۔

سپریم کورٹ کے وکیل ایڈوکیٹ شاہ رخ عالم نے  بتایا کہ حکومت کی طرف سے اس تقریب کو منسوخ کرنے کی کوشش کی گئی تھی،   منتظمین کو پولیس کی طرف سے ایک نوٹس موصول ہوا تھا  جس میں کہا گیا تھا کہ "اس پروگرام کے انعقاد سے  امن و امان  کی صورت حال  خراب ہو سکتی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ   "مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کے متعدد واقعات ہوئے ہیں، لاتعداد ‘مہاپنچایت’ اور ‘دھرم سنسد’ جو ملک بھر میں تشدد کو ہوا دیتے ہیں لیکن سپریم کورٹ کی مسلسل یاد دہانیوں کے باوجود بظاہر ایسی تقریبات منعقد کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

عمر خالد کے والد اور ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے صدر سید قاسم رسول الیاس نے سوال کیا: ’’اگر پارلیمنٹ اور عدلیہ  سے ہم نا کام ہو جائیں تو پھر ہم کہاں جائیں گے ؟ الیاس نے حکام اور پولیس پر جان بوجھ کرعمر کو  جیل میں ڈالنے کا الزام لگایا۔ انہوں نے کہا: "ابھی تک اس کے خلاف کچھ نہیں ملا ہے، لیکن عدالت اور پولیس اس کے مقدمے کو طول دینے کے لیے غیر ضروری دلائل کا استعمال کر رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عمر نے ایک خواب دیکھا تھا ایک ایسے ہندوستان کا خواب   جہاں ہر کوئی آزادانہ طور پر رہتا ہے، کوئی بھی بغیر کھائے نہ سوتا ہو، ایسا ہندوستان جہاں کوئی بھی کھلے آسمان کے نیچے  رات گزارنے پر مجبور نہ ہو۔ ہم سب ایسے ہی ایک  ہندوستان کے خیال پر یقین رکھتے ہیں ۔

راشٹریہ جنتا دل کے ایم پی منوج جھا نے جمہوریت اور اختلاف کے بارے میں طویل  گفتو کی۔ اور بتایا کہ موجودہ دور میں اس کی حفاظت کیوں ضروری ہے۔انہوں نے کہاکہ جمہوریت صرف انتخابات سے متعلق نہیں ہے، جیسا کہ ہمارے وزیر خارجہ سوچتے ہیں۔ جمہوریت اداروں کے بارے میں ہے اور ہمارے ادارے کیسے کام کر رہے ہیں، چاہے وہ عدلیہ ہو، ایگزیکٹو ہو، مقننہ ہو یا میڈیا۔انہوں نے ایک سخت تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنی زندگی میں   ہندوستان کی تاریخ میں ایسا  بزدل اور غیر محفوظ وزیر اعظم نہیں دیکھا۔

پروفیسر جھا نے آگے کہا: "ہر چیز کی طرح، اس حکومت کی بھی ایک ختم ہونے کی تاریخ ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ختم ہونے کی تاریخ قریب ہے، خاص طور پر جب اس اسٹیبلشمنٹ کا انسانی جذبات اور حالت زار سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

واضح رہے کہ 15 اپریل 2021 کو دہلی کی ایک عدالت نے خالد کو ضمانت دے دی تھی ۔ تاہم، خالد کو اپنے خلاف دیگر سخت الزامات کی روشنی میں جیل میں رہنے پر مجبور کیا گیا۔گزشتہ 1000 دنوں میں، عمر خالد صرف ایک ہفتے جیل سے باہر رہے۔ اس عرصے کے دوران 800دن جیل میں گزارنے کے بعد انہیں  اپنی بہن کی شادی میں شرکت کے لیے صرف سات دن کی عبوری ضمانت دی گئی۔