علی گڑھ میں400 سال پرانی مسجد کو منہدم کرنے کا فرمان
علی گڑھ کے اگلاس میں یہ چار سو سالہ قدیم مسجد واقع ہے،تمام دستاویزات کے باوجود ڈی ایم کا منمانہ حکم،مسجد فریق نے ڈی ایم سے ملاقات کرکے حکم واپس لینے کا مطالبہ کیا

دعوت ویب ڈیسک
نئی دہلی ،24 جولائی:۔
ابھی ملک میں متنازعہ وقف ترمیمی قانون کے خلاف مسلمانوں کا احتجاج جاری ہے اور ابھی کورٹ میں بھی معاملہ چل رہا ہے گر اس سے قبل بی جے پی کی حکومت اس متنازعہ قانون کو نافذ کرنا اور اس قانون پر عمل کرنا شروع کر دیا ہے ۔جیسا کہ اس قانون میں ترمیمی کے بعد مسلمانوں کی جانب سے وقف جائیدادوں کو مسلمانوں سے چھیننے کا خدشہ ظاہر کیاجا رہا تھا اب وہیں سامنے آ رہا ہے ۔قدیم عبادت گاہوں کو تما م کاغذات کے باوجود منہدم کرنے اور غیر قانونی قرار دینے کا چلن شروع ہو گیا ہے ۔
رپورٹ کے مطابق علی گڑھ کے ڈی ایم نے علی گڑھ کے اگلاس میں واقع چار سو سالہ قدیم مسجد کو ہٹانے اور منہد کرنے کا فرمان جاری کیا ہے ۔حالانکہ کہا جا رہا ہے کہ اس مسجد کے تمام دستاویزات مسجد فریق کے پاس موجود ہے اور اس کے باوجود ڈی ایم انہدام کا حکم جاری کررہے ہیں ۔کانگریس لیڈر آغا یونس نے الزام لگایا ہے کہ مسلم فریق کے پاس مسجد کے تمام دستاویزات موجود ہیں، لیکن ڈی ایم نے مسجد کمیٹی کی بات سنے بغیر مسجد کو منہدم کرنے کا حکم دے دیا ۔ڈی ایم کے اس فرمان کے بعد علاقائی مسلمانوں میں غم و غصہ پایا جا رہا ہے ۔کانگریس رہنما آغا یونس کی قیادت میں مسجدفریق کے ایک وفد نے ڈی ایم سے ملاقات کی اور تمام دستاویزات دکھانے کے بعد اپنا حکم واپس لینے کا مطالبہ کیا۔یہ مسجد تقریباً 400 سال قدیم ہے اور سنی وقف بورڈ میں رجسٹرڈ ہے ۔ اس مسجد کی تعمیر چونا،ککئیا اینٹ اور پتھر سے کی گئی ہے جو قدیم مساجد کی تعمیر میں عام طور پر استعمال کئے جاتے ہیں۔
ایک یو ٹیوب چینل فورجی سے بات چیت کرتے ہوئے کانگریس لیڈر آغا یونس نے الزام لگایا ہے کہ وقف ترمیمی ایکٹ کا یہ پہلا معاملہ ہے، حالانکہ یہ قانون ابھی تک نافذ نہیں ہوا ہے اور ڈی ایم پہلے ہی وقف ترمیمی قانون کے تحت یہ فیصلہ دے چکے ہیں۔آغا یونس نے الزام عائد کیا ہے کہ یہاں کے ایک بی جے پی رہنما ہیں جو مسجد اور مندر کے نام پر تنازعہ پر اپنی سیاست چمکانا چاہتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ مسجد کمیٹی کے لوگو ں بتایا کہ ڈی ایم نے ان کی کوئی بات اور ان کے دستاویزات کو بھی نہیں دیکھا گیا ۔نگر پنچایت میں بھی مسجد درج ہے ،1986 کے گزٹ میں بھی مسجد موجود ہے،تمام دستاویزات میں مسجد موجود ہے اور کاغذات دکھائے جا رہے ہیں اس کے باوجود مسجد کو منہدم کرنے یا ہٹانے کا حکم انصاف کے خلاف ہے ۔انہوں نے بتایا کہ ان تمام دستاویزات کی روشنی میں اپنا فرمان واپس لیں کیونکہ اس مسجد کے خلاف کو تفرقہ پیدا کرنے فرقہ وارانہ ماحو ل خراب کرنے والوں نے عرضی دی ہے ۔