علی گڑھ مسلم یونیور سٹی کے خلاف وشو ہندو پریشد کے رہنما کی اشتعال انگیزی

جوائنٹ جنرل سکریٹری ڈاکٹر سریندر جین نے اے ایم یو کودہشت گردی کی نرسری قرار دیا

نئی دہلی ،علی گڑھ, 23 دسمبر

علی گڑھ مسلم یونیور سٹی ہندوستانی مسلمانوں کی شان اور آن ہے۔ تعلیم کے میدان میں مسلمانوں کا ایک اعلیٰ ادارہ ہے جس سے ہر سال ہزاروں کی تعداد میں مسلمان تعلیم حاصل کر کے دنیا بھر میں ملک کا نام روشن کر رہے ہیں ۔بڑے بڑے سرکاری عہدوں پر فائز ہیں اور ملک کی خدمت میں سر گرم ہیں ۔مگر مسلم شناخت کی وجہ سے اے ایم یو ہمیشہ شدت پسند ہندوؤں کے نشانے پر رہی ہے۔ کسی نہ کسی بہانے شدت پسند ہندو علی گڑھ کو بد نام کرنے  کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں ۔ ایک بار پھر شدت پسند اور مسلم نفرت کے لئے معروف وشو ہندو پریشد کے رہنما نے علی گڑھ مسلم یونیور سٹی کے خلاف اشتعال انگیز بیان دیا ہے۔وی ایچ پی کے جوائنٹ سکریٹری ڈاکٹر سریندر جین نے اے ایم یو کو ایک بیان مین دہشت گردی کی نر سری قرار دیاہے۔جس پر مسلمانوں  اور اے ایم یو برادری میں ناراضگی ہے۔

رپورٹ کے مطابق وشو ہندو پریشد کے بین الاقوامی جوائنٹ جنرل سکریٹری ڈاکٹر سریندر جین نے اے ایم یو کو دہشت گردی کی نرسری قرار دیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ  پاکستان بنانے کے دلائل اے ایم یو سے گھڑے گئے تھے۔ اسی لیے جناح نے کہا تھا، اے ایم یو پاکستان کا اسلحہ خانہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ راجہ مہندر پرتاپ سنگھ نے اسے زمین عطیہ کی تھی، یہاں تک کہ جب مرکزی حکومت پیسہ خرچ کرتی ہے تو اسمیں مسلمانوں کو فائدہ  دیا جا رہا ہے،اے ایم یو سے جناح کی تصویر نہیں ہٹائیں گے، چاہے بھارت ماتا مردہ باد کے نعرے ہی کیوں نہ لگائے جائیں۔ یہاں کیسی تعلیم دی جاتی ہے؟

آگرہ روڈ کے لال بہادر شاستری کالج میں وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کی طرف سے منعقدہ ترشول دکشا تقریب میں ڈاکٹر جین نے خطاب کرتے ہوئے کہا میں سوچتا تھا کہ اگر کشمیر سے دہشت گرد پکڑے جاتے ہیں تو انکے پاس اے ایم یو کارڈ کیوں ہے؟ یہاں ہاسٹل میں کچھ دہشت گرد چھپے ہوئے تھے، انہیں پکڑنے کے لئے ،ان سے تفتیش کے لئےآئی بی کا افسرجاتا ہے تو اس پر حملہ کیا جاتا ہے، یہ اے ایم یو کی تاریخ رہی ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ  اس ضلع کی پہچان علیگڑھ نہیں بلکہ ہری گڑھ ہے۔ مسلم آبادی والے علاقے میں دو مندروں کا بند ہونا اور یہاں سے ہندو خاندانوں کی نقل مکانی تشویشناک ہے۔ انہوں نے اس موقع پر ہندو اکثریت کا مسلمانوں کےے خلاف بھڑکاتے ہوئے کہا کہ اگر آپ نے ایودھیا کا موقع گنوا دیا تو اب اسے ضائع نہ کریں۔ پرانی مساجد کو کھودیں، انکے نیچے آپ کو ضرور کچھ ملے گا۔ ہمایوں اور بابر جیسے آمروں نے ملک میں مندروں کو گرا دیا اور مساجد تعمیر کیاتھا۔ متھرا اور کاشی کی مسجدیں اسکا ثبوت ہیں۔