علی گڑھ مسلم یونیور سٹی کے اقلیتی کردار پر سپریم کورٹ  کے فیصلے کا خیر مقدم

نئی دہلی ،08 نومبر :۔

آج سپریم کورٹ نے علی گڑھ مسلم یونیور سٹی کے دہائی سے چلے آ رہے اقلیتی کردار کے مسئلے پر اپنا فیصلہ سناتے ہوئے اقلیتی کردار کر بر قرار رکھا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے مزید تین رکنی کمیٹی تشکیل دی ہےجو جائزہ لے کر یونیور سٹی کے اقلیتی کردار پر حتمی فیصلہ کرے گی ۔ سپریم کورٹ کے فیصلے سے مسلمانوں نے راحت کی سانس لی ہے اور ہر چہار جانب اس فیصلے کو تاریخی قرار دیتے ہوئے اس کا خیرم مقدم کیا جا رہا ہے۔

جماعت اسلامی ہند کے امیر  سید سعادت اللہ حسینی نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے اقلیتی درجہ کو برقرار رکھنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ ایس عزیز باشا بمقابلہ 1967 کے فیصلے کو کالعدم قرار دے کر عدالت عظمیٰ نے ایک تاریخی فیصلہ سنایا ہے جو اس طرح کے ہزاروں اداروں کے اقلیتی کردار کو محفوظ رکھنے کا پابند ہے جنہیں قانونی چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔

سید سعادت اللہ نے کہا، "ہم امید کرتے ہیں کہ حکومتیں اور مقامی حکام یہ سمجھیں گے کہ اقلیتیں، خاص طور پر مسلمان، ہندوستان کا ایک لازمی حصہ ہیں، اور تعلیم، معاش، تحفظ اور سلامتی کے حوالے سے ان کے بنیادی حقوق کا تحفظ کیا جانا چاہیے۔ حکومت کو اپنا رویہ بدلنا چاہیے تاکہ اقلیتوں کو اپنے ترقیاتی ایجنڈے میں اقلیتوں کے مسائل کے حل کے لیے عدالتوں سے رجوع کرنے کی ضرورت نہ پڑے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ان کے اداروں کی حفاظت اور انھیں ضروری رعایتیں دی جائیں اور اقلیتوں کو ان کی گرتی ہوئی سماجی و اقتصادی حیثیت کو بہتر بنانے کے لیے فوائد دینا کسی بھی جمہوری ملک کی خصوصیت ہے۔

رکن راجیہ سبھا اور کانگریس کے اقلیتی شعبہ کے چیئرمین عمران پرتاپ گڑھی نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے اقلیتی کردار کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کیا۔ انہوں نے اس فیصلے کو اے ایم یو کے لیے بڑی راحت قرار دیا اور کہا کہ اس کے اقلیتی کردار کی راہ میں حائل رکاوٹیں اب دور ہوگئی ہیں۔ یاد رہے کہ ہائی کورٹ نے پہلے اے ایم یو کے اقلیتی کردار پر اعتراض اٹھایا تھا لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے نے اس فیصلے کو منسوخ کر دیا ہے۔

عمران پرتاپ گڑھی نے کہا کہ یہ فیصلہ اے ایم یو کے طلباء، انتظامیہ اور اسٹاف کی مسلسل جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پورا مسلم طبقہ اس فیصلے کی حمایت کرتا ہے اور اس کی اہمیت کا اعتراف کرتا ہے۔ انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے تمام طالب علموں اور علیگ برادری کو اس کامیابی پر مبارکباد پیش کی۔

صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی نے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے اہم اور دو ر رس نتائج کا حامل بتایا  ۔ مولانا مدنی نے کہا کہ اس فیصلے نے موجودہ حکومت کو بھی آئینہ دکھایا ہے جو اقلیتی کردار کی بحالی میں رکاوٹ بنی ہوئی تھی اور اس نے سابقہ حکومت کے موقف کے خلاف عدالت میں اقلیتی کردار کوختم کرنے کا موقف اختیار کیاتھا۔

مولانا مدنی نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند نے ہمیشہ مسلم اقلیت کے تعلیمی اور آئینی حقوق کے لیے جد وجہد کی ہے۔ اس کی مثال حال میں دینی مدارس کے خلاف سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کی طرف سے جاری منفی مہم کو روکنے کی کوشش ہے ۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) نے ایک ریلیز جاری کر کے اپنے اقلیتی کردار کے سلسلہ میں جمعہ کو سپریم کورٹ آف انڈیا کے ذریعہ سنائے گئے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔یونیورسٹی کے رابطہ عامہ دفتر کے ممبر انچارج پروفیسر محمد عاصم صدیقی نے ایک بیان میں کہا ”ہم معزز سپریم کورٹ کے فیصلے کا انکساری کے ساتھ خیر مقدم کرتے ہیں۔ ہم کفایتی اور معیاری تعلیم کے کاز کے تئیں اپنی خدمات جاری رکھیں گے اور ملک و قوم کی تعمیر میں اپنا مثبت کردار ادا کرتے رہیں گے“۔

انہوں نے کہا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، اپنے قیام کے دن سے تعلیم فراہم کرنے اور علم کی ترویج و اشاعت میں نمایاں کردار ادا کرتی آرہی ہے اور اس نے زندگی کے مختلف شعبوں میں کثیر تعداد میں نامور افراد بشمول سائنسداں، جج، سیاست داں، ماہرین تعلیم، فنکار اور قومی سطح کے کھلاڑی ملک کو دئے ہیں اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔

دریں اثنا اسلامک سینٹر آف انڈیا کے چیئرمین مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کی اقلیتی حیثیت پر سپریم کورٹ کے فیصلے کو ایک تاریخی فیصلہ قرار دیا۔ انہوں نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ۔

انہوں نے کہا کہ اب اے ایم یو کی اقلیتی حیثیت کا جائزہ لینے کے لیے ایک معمول کی بنچ کے سامنے یہ معاملہ پیش کیا جائے گا تاکہ یہ طے کیا جا سکے کہ کیا واقعی اسے اقلیتوں نے قائم کیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ 20 جولائی 1872 کو سر سید احمد خان نے مسلم برادری کے لیے ایک تعلیمی ادارہ قائم کرنے کے لیے مختلف مسلم ریاستوں سے عطیات کی اپیل کی۔ 24 اپریل 1875 کو انہوں نے مدرسۃ العلوم کی بنیاد رکھی، جو اس ادارے کا آغاز تھا۔ 8 جنوری 1877 کو اسے ایک کالج میں تبدیل کر دیا گیا اور 1920 میں یہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی صورت میں قائم ہوا، جو اسلامی ماحول میں جدید تعلیم فراہم کرتا ہے تاکہ مسلم طلباء میں سائنسی شعور پیدا کیا جا سکے۔ انہوں نے سوال کیا، “اگر اے ایم یو کو اقلیتی ادارہ تسلیم نہیں کیا جائے گا تو کس ادارے کو اقلیتی ادارہ کہا جائے گا اور پھر آرٹیکل 30 کا حقیقی مقصد کیا ہے؟