علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی درجہ فی الحال برقرار
سپریم کورٹ کی آئینی بنچ نے 4-3 سے فیصلہ سناتے ہوئے اقلیتی حیثیت کا نے سرے سے تعین کرنے کیلئے ایک کمیٹی کی تشکیل کی
نئی دہلی،08 نومبر :۔
علی گڑھ مسلم یونیور سٹی کے تعلق سے کئی دہائیوں سے یہ تنازعہ چل رہا ہے کہ کیا واقعی علی گڑھ مسلم یونیور سٹی قانونی طور پر اقلیتی ادارہ ہے ؟ آج جمعہ کو سپریم کورٹ نےعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے اقلیتی درجہ پر فیصلہ سناتے ہوئے فی الحال اقلیتی حیثیت کو برقرار رکھنے کا اعلان کیا۔ چیف جسٹس آف انڈیا سمیت 7 ججوں کی بنچ نے اس کیس کا فیصلہ 4-3 کے اکثریتی ووٹ سے سنایا۔ اس فیصلے میں چیف جسٹس چندرچوڑ، جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس پاردیوالا نے ایک رائے اختیار کی، جبکہ جسٹس سری کانت، جسٹس دیپانکر دتہ، اور جسٹس ستیش چندر شرما نے مختلف رائے دی۔
لائیو لا کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ نےایس عزیز باشا بمقابلہ یونین آف انڈیا کے معاملے میں 1967 کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا۔ مذکورہ فیصلے میں کہا گیا تھاکہ قانون کے تحت بننے والا کوئی بھی ادارہ اقلیتی ادارہ ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی درجہ برقرار رکھا۔اب یہ مسئلہ کہ اے ایم یو اقلیتی ادارہ ہے یا نہیں اس کا فیصلہ ریگولر بنچ کو اکثریت کے اس نظریے کی بنیاد پر کرنا ہے۔
عزیز باشا کیس میں عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ اے ایم یو اقلیتی درجہ کا دعویٰ نہیں کر سکتی کیونکہ یہ قانون کے ذریعہ قائم ہے۔چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) ڈی وائی چندرچوڑ کی قیادت میں اکثریت نے عزیز باشا کیس کو مسترد کردیا اور کہا کہ کوئی ادارہ اقلیتی حیثیت کو محض اس لیے نہیں کھوئے گا کہ یہ قانون کے ذریعہ قائم کیا گیا ہے۔ اکثریت کا خیال تھا کہ عدالت کو اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ یونیورسٹی کی بنیاد کس نے رکھی اور اس کے پیچھے "ذہن” کون تھا۔ اگر یہ تحقیقات اقلیتی برادری کی طرف اشارہ کرتی ہے تو ادارہ آرٹیکل 30 کے مطابق اقلیتی حیثیت کا دعویٰ کر سکتا ہے۔ آئینی بنچ نے اس حقیقت کے تعین کے لئے معاملہ باقاعدہ بنچ کو بھیج دیا۔
چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) نے کہا کہ آرٹیکل 30 (اے) کے تحت کسی ادارے کو اقلیتی ادارہ قرار دینے کے معیارات کیا ہیں؟ آرٹیکل 19(6) کے تحت کسی بھی شہری کے ذریعہ قائم تعلیمی ادارے کو منظم کیا جا سکتا ہے۔ آرٹیکل 30 کے تحت دیے گئے حقوق مکمل آزاد نہیں ہیں۔ اقلیتی تعلیمی اداروں کو آرٹیکل 19(6) کے تحت ضابطہ بندی کی اجازت دی گئی ہے، بشرطیکہ اس سے ادارے کے اقلیتی کردار کی خلاف ورزی نہ ہو۔
چیف جسٹس نے مزید وضاحت کی کہ مذہبی کمیونٹی ایک ادارہ قائم کر سکتی ہے لیکن اس کا انتظام نہیں چلا سکتی۔ یہ بھی کہا گیا کہ مخصوص قوانین کے تحت قائم ہونے والے اداروں کو آرٹیکل 31 کے تحت تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔
واضح رہے کہ یہ کیس کئی دہائیوں سے تنازعے کا شکار تھا اور 2005 میں الہ آباد ہائی کورٹ نے اس ترمیم کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اسے رد کر دیا تھا۔ بعد میں 2006 میں، مرکز نے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا اور 2019 میں اس کیس کو سات ججوں کی بنچ کو بھجوا دیا گیا۔جس پر آج اکثریت سے بینچ نے اے ایم یو کے اقلیتی کردار کر بر قرار رکھے جانے کا فیصلہ سنایا۔