عدلیہ میں بدعنوانی : عدالتوں میں جج اب کھل کر اکثریت کی حمایت کر رہے ہیں
راجیہ سبھا رکن پارلیمنٹ اور معروف وکیل کپل سبل نے عدالتی نظام میں خامیوں پر گفتگو کرتے ہوئےججوں کے ذریعہ سیاسی پارٹیوں کے موقف اپنانے کا الزام عائد کیا

نئی دہلی،23 مارچ :۔
حالیہ برسوں میں کچھ ریاستوں کی عدالتوں کی جانب سے کچھ ایسے فیصلے آئے ہیں جس سے عوام کا اعتماد عدلیہ کے تئیں متزلزل ہوا ہے۔خاص طور پر مسلمانوں کے سلسلے میں بعض عدالتوں کے ججوں کے تبصرے اتنے خطرناک اور متعصب رہے ہیں جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ جج جب انصاف کی کرسی پر بیٹھتے ہوں گے تو ان سے کس طرح ایک مسلمان انصاف کی امید کر سکتا ہے۔الہ آباد کے جج جسٹس شیکھر یادو کا مسلمانوں کے سلسلے میں انتہائی متنازعہ بیان ابھی زیادہ پرانا نہیں ہوا ہے۔حالیہ دنوں میں دہلی ہائی کورٹ کے جج جسٹس یشونت ورما کے گھر میں ملی نقدی پر جاری بحث بھی عدلیہ کے تئیں اعتماد کو کمزور کرنے والا ہے۔ دریں اثنا سپریم کورٹ کے معروف وکیل کپل سبل نے اس بات کا اشارہ کیا ہے کہ عوام کا عدالتی نظام پر اعتماد کم ہوا ہے۔ یہ دعوی کرتے ہوئے کہ لوگوں کا عدالتی نظام پر اعتماد کم ہوا ہے، راجیہ سبھا کے رکن کپل سبل نے کہا ہے کہ متبادل تبھی تلاش کیا جا سکتا ہے جب حکومت اور عدلیہ دونوں یہ تسلیم کریں کہ ججوں کی تقرری سمیت موجودہ نظام اب کارآمد نہیں ہے۔ سبل نے ایک نیوز ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے عدالتی نظام کی خامیوں کے بارے میں بات کی۔
انہوں نے مثال دی کہ کس طرح ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالتیں زیادہ تر مقدمات میں ضمانت نہیں دے رہی ہیں۔ سینئر وکیل سبل نے گزشتہ سال الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شیکھر کمار یادو کے متنازعہ بیان کے معاملے کا بھی حوالہ دیا۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وہ عدالتی نظام کے بارے میں فکر مند ہیں، سبل نے کہا، "پچھلے کئی سالوں سے عدلیہ کے بارے میں مختلف پہلوؤں پر تشویش پائی جاتی ہے، ایک تشویش بدعنوانی کے بارے میں ہے، اور بدعنوانی کے کئی معنی ہیں۔ ایک مطلب یہ ہے کہ جج کچھ مالی فائدے کی وجہ سے فیصلہ دیتا ہے۔ "بدعنوانی کی دوسری شکل حلف کے خلاف کام کرنا ہے، جو کہ بلا خوف و خطر فیصلے دینا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں ایک مثال دیتا ہوں، ڈسٹرکٹ کورٹ اور سیشن کورٹ میں شاید ہی کوئی جج ہو جو ضمانت دے سکے۔ اب یہ نہیں ہو سکتا کہ مجسٹریٹ کورٹ یا سیشن کورٹ ہر معاملے میں ضمانت مسترد کر دے۔ 90-95 فیصد مقدمات میں ضمانت مسترد ہو جاتی ہے۔
سبل نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ سسٹم میں کچھ "غلط” ہے۔ سینئر وکیل نے سوال کیا کہ کیا جج کو ڈر ہے کہ اگر انہوں نے ضمانت دی تو اس سے ان کے کیریئر پر اثر پڑے گا۔ سبل نے کہا کہ تیسری شکل یہ ہے کہ جج اب کھل کر اکثریت پسندی کی حمایت کر رہے ہیں اور سیاسی موقف اپنا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا، “مغربی بنگال میں ایک جج تھے جو ایک سیاسی پارٹی کے خیالات کی کھل کر حمایت کر رہے تھے اور پھر انہوں نے استعفیٰ دے کر اس مخصوص پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔ ایک جج بھی تھا جس نے کھل کر کہا، ‘ہاں، میں آر ایس ایس سے وابستہ ہوں ۔