عدالت نےشرجیل امام کو 2019 کےجامعہ نگر تشدد معاملے میں ‘ماسٹر مائنڈ’ قرار دیا

نئی دہلی ،09 مارچ :۔
دہلی کی ساکیت عدالت نے جامعہ نگر علاقے میں 2019 کے تشدد کے سلسلے میں شرجیل امام اور 11 دیگر کے خلاف الزامات طے کیے ہیں۔ ساکیت عدالت نے اس کیس میں شفاء الرحمان سمیت 15 افراد کو بری کر دیا ہے وہیں شرجیل امام کو تشدد کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق عدالت نے آرمز ایکٹ کے سیکشن 25/27 کے تحت فرد جرم عائد نہیں کی۔ تاہم، اس نے شرجیل امام پر تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی متعدد دفعات کے تحت فرد جرم عائد کی ہے، جس میں دفعہ 109 (بھڑکانا)، 120B (مجرمانہ سازش)، 153A (دشمنی کو فروغ دینا)، 143/147/148/149 (فساد)، 186 (سرکاری ملازم سے متعلق تشدد) اور دیگر پبلک پراپرٹی ڈیمیج پریونشن ایکٹ کے تحت بھی شرجیل امام پر فرد جرم عائد کیا گیا۔
عدالت نے آشو خان، چندن کمار، اور آصف اقبال تنہا کے خلاف بھی اسی طرح کی آئی پی سی سیکشن کے تحت الزامات طے کیے، جن میں دفعہ 109 اور پبلک پراپرٹی ڈیمیج پریوینشن ایکٹ شامل ہیں۔
دریں اثنا شفاء الرحمان، محمد عادل، روح الامین، محمد جمال، محمد عمر، محمد ساحل اور کئی دیگر کو عدالت نے بری کر دیا۔ عدالت کو کیس میں ان کے خلاف ناکافی ثبوت کا حوالہ دیا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں شرجیل امام کو تشدد کے پیچھے ’’ماسٹر مائنڈ‘‘ قرار دیا۔ عدالت نے کہا کہ شرجیل امام نے نہ صرف ایک برادری کو اکسایا بلکہ تشدد بھڑکانے کی ایک بڑی سازش کا ماسٹر مائنڈ تھا۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ امام کے اقدامات سے کئی شمالی ریاستوں میں بڑے پیمانے پر خلل پڑا، غصہ اور نفرت پھیلی۔
عدالت نے شرجیل امام کے دفاع کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ قبول نہیں کیا جاسکتا کہ عوامی سڑکوں پر ہجوم کی وجہ سے ہونے والا ہنگامہ ان کی تقریر کا نتیجہ نہیں تھا‘۔ عدالت نے مزید کہا کہ امام کی تقریر کا مقصد غصہ اور نفرت کو ہوا دینا تھا، جس سے غیر قانونی اجتماع اور تشدد ہوا تھا۔