عدالت عظمیٰ اتر پردیش میں انتظامیہ کے رویہ سے پھرسخت برہم
دیوانی مقدمات کو مجرمانہ مقدمات میں تبدیل کرنے پر چیف جسٹس آف انڈیا نے سخت سرزنش کی

نئی دہلی ،07 اپریل :۔
اتر پردیش حکومت ہو یا پولیس انتظامیہ دونوں حالیہ دنوں میں سپریم کورٹ کے نشانے پر ہیں ۔ ابھی حال ہی میں سپریم کورٹ نے اتر پردیش حکومت کے ذریعہ غیر قانونی طریقے سے لوگوں کے گھروں کو منہدم کرنے پر ناراضگی کا اظہار کیا تھا اور سخت سرزنش کی تھی اب ایک بار پھر عدالت عظمیٰ نے اتر پردیش پولیس کے رویہ پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔آج چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ نے ریاست میں دیوانی تنازعات (سول کیسز) کو مجرمانہ معاملوں میں بدلنے پر ناراضگی ظاہر کی ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا نے کہا کہ اتر پردیش میں جو ہو رہا ہے، وہ سراسر غلط ہے۔ روزانہ دیوانی مقدمات کو مجرمانہ مقدمات میں بدلا جا رہا ہے۔ انتظامیہ کے رویہ پر عدالت عظمیٰ نے سخت تبصرہ کرنے کے ساتھ ہی آئندہ اس طرح کے معاملے سامنے آنے پر جرمانہ لگانے کی تنبیہ بھی کی۔
عدالت عظمیٰ نے ایک معاملے پر سماعت کرتے ہوئے کہا کہ یہ بے معنی ہے، صرف پیسہ نہ دینے کو جرم نہیں بنایا جا سکتا۔ چیف جسٹس سنجیو کھنہ نے کہا کہ میں جانچ افسر کو گواہ کے کٹہرے میں آنے کو کہوں گا۔ جانچ افسر کو گواہ کے کٹہرے میں کھڑے ہو کر جرم کا معاملہ بنانے دیں، یہ درست رہے گا۔ آگے سے اس طرح کا کوئی بھی معاملہ سامنے آنے پر سخت کارروائی کی جائے گی۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہم ہدایت دیتے ہیں، اسے سبق سیکھنے دیں۔ یہ چارج شیٹ داخل کرنے کا طریقہ نہیں ہے۔ یہ عجیب ہے کہ اتر پردیش میں یہ اکثر ہو رہا ہے، وکیل بھول گئے ہیں کہ دیوانی حلقۂ اختیارات بھی ہیں۔
چیف جسٹس سنجیو کھنہ نے تنبیہ کے انداز میں کہا کہ میں پولیس ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل سے اس معاملے میں پیش قدمی کرنے کے لیے کہوں گا۔ یہ غلط ہے، ہم اس معاملے کو پاس اوور کر رہے ہیں، لیکن اب جو بھی معاملہ (یوپی میں) آئے گا، ہم پولیس پر جرمانہ عائد کریں گے۔
قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ نے اتر پردیش کے معاملوں پر گزشتہ سال دسمبر میں بھی کہا تھا کہ یہاں دیوانی تنازعات کو مجرمانہ معاملوں کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ یہ فکر کا موضوع ہے۔ انھوں نے اس وقت دھوکہ دہی کے معاملے پر لگی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے یہ تبصرہ کیا تھا۔