عدالتی حکم کے بعد جامع مسجد گیان واپی میں دیر رات سےپوجا کا آغاز
ہندو فریق نے تہہ خانے میں پوجا کی اجازت کو بابری مسجد کا تالا کھولے جانے سے موازنہ کیا،پولیس کمشنر اور مجسٹریٹ نے انتہائی سرعت کے ساتھ انتظامات کئے
وارانسی،یکم فروری :۔
جامع مسجد گیان واپی کے سلسلے میں وارانسی کی ضلعی عدالت نے جس عجلت کے ساتھ یکے بعد دیگرے فیصلے سنائے ہیں وہ حیران کن ہی نہیں بلکہ عدالتی کارروائی کی تاریخ میں حیرت انگیز بھی ہے۔گزشتہ روز بدھ کو وارانسی کی ضلع عدالت کے گیانواپی کے تہہ خانے میں پوجا کرنے کی اجازت فراہم کرنے کے بعد یہاں راتوں رات رکاوٹیں ہٹا دی گئیں اور آدھی رات کے بعد 2 بجے پوجا پاٹھ کی گئی۔ دیر رات پوجا پاٹھ کے بعد وہاں ہندو عقیدت مندوں کی بھیڑ جمع ہونے لگی ہے۔پولیس اور انتظامیہ نے جس سرعت کے ساتھ تمام انتظامات کئے ہیں وہ حیران کن ہیں۔عدالت نے اس سلسلے میں ایک ہفتے کے اندر انتظام مکمل کرنے کی ہدایت جاری کی تھی لیکن مجسٹرین اور پولیس کمشنر نے دیر رات تمام انتظامات کر کے کورٹ کے حکم کو عملی جامہ پنا دیا۔
دریں اثنا بھگوا تنظیموں کے ارکان بھی سر گرم نظر آئے اور سائن بورڈ پر لگے گیان واپی مسجد مارگ پر مندر کو پوسٹر چسپاں کر دیا۔دیر رات تک یہ سلسلہ جاری رہا اور لوگوں کی ایک بھیڑ پوجا کے لئے پہنچتی رہی۔
عدالت کے حکم کے بعد بدھ کی دیر رات گیانواپی کے ویاس تہہ خانے کے باہر اچانک ہنگامہ بڑھنے لگا اور رات 10 بجے وارانسی کے ضلع مجسٹریٹ اور ڈی آئی جی گیانواپی کے احاطے میں پہنچ گئے۔ اس کے بعد رکاوٹیں ہٹا دی گئیں اور گیانواپی کمپلیکس کے باہر پولیس کا زبردست محاصرہ کر لیا گیا۔ رات 2 بجے پولیس کمشنر اور ضلع مجسٹریٹ اکٹھے باہر آئے اور بتایا کہ عدالتی حکم کی تعمیل ہوئی ہے۔ پولیس کمشنر اشوک موتھا جین کا کہنا ہے کہ عدالتی حکم کے مطابق سڑکوں کی تیاری، رکاوٹیں ہٹانے سمیت تمام حفاظتی انتظامات کیے گئے ہیں۔ہندو فریق عدالت کے فیصلے کا موازنہ ایودھیا میں رام مندر کا تالا کھولنے کے فیصلے سے کر رہا ہے۔
خیال رہے کہ ویاس جی تہہ خانے میں پوجا کے حق کو لے کر ایک عرضی دائر کی گئی تھی۔ گیانواپی کے اس تہہ خانے میں 30 سال سے پوجا نہیں ہو رہی تھی۔ ہندو فریق کا دعویٰ ہے کہ 1993 تک وہ تہہ خانے میں موجود مورتیوں کی باقاعدگی سے پوجا کرتے تھے۔ لیکن 1992 میں بابری انہدام کے بعد اس وقت کی ملائم حکومت نے اس حق کو ختم کر کے انہیں پوجا کے حق سے محروم کر دیا تھا، پجاریوں کو بھی وہاں سے ہٹا دیا گیا تھا، اس کے بعد یہاں ہر سال ماتا شرینگار گوری کی پوجا کی جانے لگی تھی۔