عدالتوں میں نظر آنے والی ’قانون کی دیوی ‘ کی آنکھوں سے پٹی ہٹائی گئی
ہاتھ میں تلوار کی جگہ آئین کا مسودہ ،چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی ہدایت پر تبدیلی کی گئی ہے
نئی دہلی ،17 اکتوبر :۔
گزشتہ دس برسوں میں ہم نے شہروں اور اسٹیشنوں کا نام تبدیل ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔اب ایک اور بڑی تبدیلی دیکھنے جا رہے ہیں۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی ہدایت پر اب عدالتوں میں نظر آنے والی ’انصاف کی دیوی‘ میں بھی تبدیلی کی گئی ہے۔عدالت میں رکھی جانے والی قانون کی دیوی کے مجسمے میں ہونے والی تبدیلی میں متعدد پیغامات چھپے ہونے کا اشارہ کیا جا رہا ہے۔اس تبدیلی پر ایک طرف تعریف کی جا رہی ہے تو وہیں دوسری طرف سوشل میڈیا پر تنقید اور اعتراضات بھی کئے جا رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق دراصل انصاف کی دیوی کی جو مورتی عدالتی کمروں میں اب تک نظر آتی تھی، وہ اب دیکھنے کو نہیں ملے گی۔ مورتی کی آنکھوں پر بندھی ہوئی پٹی ہٹا دی گئی ہے اور ایک ہاتھ میں موجود تلوار کو ہٹا کر اس کی جگہ آئین کی کتاب تھما دی گئی ہے۔عام طور پر ہم سنتے اور کہتے آ رہے تھے کی انصاف اندھا ہوتا ہے، مگر اس نئی مورتی میں انصاف اندھا نہیں رہے گا ۔ غالباً انصاف کی دیوی کی اس نئی مورتی سے عوام میں یہی پیغام دینے کی کوشش ہو رہی ہے کہ قانون اندھا نہیں ہے۔
جہاں تک قانون اندھا ہوتا ہے کا مقولہ عوام میں معروف ہے ، اس کا حقیقی مفہوم یہ تھا کہ آنکھوں پر بندھی پٹی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قانون اندھا ہوتا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ تھا کہ عدالتی کاررائی کے دوران عدالت چہرہ دیکھ کر فیصلہ نہیں سناتی، بلکہ ہر شخص کے لیے یکساں طریقے سے انصاف کیا جاتا ہے۔ اس مورتی کے ایک ہاتھ میں ترازو حسب سابق موجود رہے گا، لیکن دوسرے ہاتھ سے تلوار ہٹا کر آئین کی کتاب تھمانے کا بھی ایک خاص مقصد ہے۔ اس سے یہ پیغام جائے گا کہ ہر ملزم کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔
قابل ذکر ہے کہ عدالت میں لگی انصاف کی دیوی کا مجسمہ، یعنی مورتی برطانوی دور سے ہی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ اب اس میں تبدیلی کر کے عدلیہ کی شبیہ وقت کے مطابق بدلنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسے ہندوستانی رنگ میں ڈھالنے کی کوشش کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔ بڑی تعداد میں لوگ اس تبدیلی کی تعریف کر رہے ہیں، حالانکہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اس تبدیلی پر اعتراض کر رہے ہیں اور سوال کر رہے ہیں کہ کیا صرف مجسمے کی آنکھوں سے پٹی ہٹی ہے یا ججوں کی آنکھوں کی بھی پٹی ہٹے گی ۔جہاں وہ کسی ایک خاص فرقہ اور مذہب کے خلاف ہونے والی نا انصافی کو دیکھ سکیں گے۔بلڈوزر جسٹس کے ذریعہ مسلمانوں کے گھروں ، مکانوں اور مساجد پر بے دریغ چلنے والے بلڈوزر کارروائی پر بھی عدلیہ کی نگاہ پہنچے گی ۔صرف مسلمانوں کی بستی پر غیر قانونی تعمیرات اور تجاوزات کا حوالہ دے کر چلنے والا بلڈوزر ہندو اکثریت بستی پر بھی چلے گا یا رک جائے گا؟