عبادت گاہ قانون کی آئینی حیثیت پر غورکیلئے سپریم کورٹ کی خصوصی بنچ تشکیل
یہ بنچ چیف جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس سنجے کمار اور جسٹس کے وی وشنووتھن پر مشتمل ہے اور سماعت 12 دسمبر کو
نئی دہلی،07 دسمبر :۔
حالیہ دنوں میں مختلف مساجد کے خلاف ہندو شدت پسندوں کے ذریعہ مندر قرار دینے کے دعوے سے ملک میں مسلمانوں میں خاص طور پر ایک بے چینی پائی جا رہی ہے۔ایسے میں عبادتگاہ تحفظ قانون 1991 ایکٹ پر عمل آوری کی شدت سے کمی محسوس کی جا رہی ہے۔متعدد ذیلی عدالتوں کے احکامات نے 1991 ایکٹ کی آئینی حیثیت کو غیر موثر کر دیا ہے جس کی وجہ سے حالیہ دنوں میں مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ چنانچہ اس سلسلے میں سپریم کورٹ میں عرضیاں داخل کر کے عبادت گاہ ایکٹ 1991 کی آئینی حیثیت کو سختی سے بحال کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
آج سپریم کورٹ نے عبادت گاہ ایکٹ1991 کوچیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کے لیے خصوصی تین رکنی بنچ تشکیل دی ہے۔ یہ بنچ چیف جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس سنجے کمار اور جسٹس کے وی وشنووتھن پر مشتمل ہے اور سماعت 12 دسمبر کو سہ پہر 3:30 بجے ہوگی۔
یہ معاملہ پہلے 5 دسمبر کو فہرست میں شامل تھا، مگر وقت کی کمی کے باعث سماعت نہیں ہو سکی۔ عدالت ان درخواستوں کے ساتھ ان اپیلوں پر بھی غور کرے گی جو اس ایکٹ کی حمایت میں داخل کی گئی ہیں۔ جمعیۃ علماء ہند نے عبادت گاہ ایکٹ کے تحفظ کے لیے احکامات جاری کرنے کی درخواست کی ہے، جبکہ گیانواپی مسجد کمیٹی نے اس ایکٹ کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے والی درخواستوں میں مداخلت کی اپیل دائر کی ہے۔
سپریم کورٹ نے پہلی بار مارچ 2021 میں مرکز کو نوٹس جاری کرتے ہوئے عبادت گاہوں کے ایکٹ کو چیلنج کرنے والی درخواست پر جواب طلب کیا تھا۔ اس کے بعد عدالت نے کئی متعلقہ درخواستوں اور اپیلوں پر نوٹس جاری کیے اور تمام معاملات کو ایک ساتھ سماعت کے لیے جوڑ دیا۔ تاہم، عدالت نے متعدد مواقع پر مرکز سے جواب طلب کیا لیکن مرکز نے ابھی تک ان درخواستوں کا جواب جمع نہیں کرایا ہے۔
اس معاملے میں آخری حکم گزشتہ سال 31 نومبر کو رجسٹرار کورٹ نے جاری کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ مرکز نے ابھی تک اپنا جوابی حلف نامہ داخل نہیں کیا ہے۔ عدالت میں دائر درخواستوں میں عبادت گاہ (خصوصی ضابطہ) ایکٹ 1991 کی دفعات 2، 3 اور 4 کی آئینی حیثیت کو چیلنج کیا گیا ہے، یہ دلیل دی گئی ہے کہ یہ نہ صرف آئین کی دفعات کی خلاف ورزی کرتی ہیں بلکہ سیکولرازم کے اصولوں کے بھی منافی ہیں۔