عبادت گاہ قانون سے متعلق سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ ، اگلے حکم تک مندر-مسجد سروے پر روک
عدالت عظمیٰ تفصیلی سماعت چار ہفتے بعد کرے گی،مرکزی حکومت کو بھی جواب داخل کرنے کی ہدایت ، مندر مسجد تنازعہ پر کوئی نیا معاملہ درج نہیں ہوگا
نئی دہلی،12 دسمبر:۔
سپریم کورٹ نے پلیس آف ورشپ ایکٹ 1991 کے آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر سماعت ملتوی کر دی ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ وہ اس معاملے کی سماعت چار ہفتوں کے بعد کرے گی۔ اس دوران اس قانون کو چیلنج کرنے کے لیے مزید درخواستیں دائر نہیں کی جائیں گی۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ جب تک سپریم کورٹ اس معاملے کی سماعت کر رہا ہے، اس وقت تک ملک کی کوئی عدالت حتمی فیصلہ نہ دے۔ اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے اپنے اگلے حکم تک مسجدوں کے سروے پر بھی روک لگا دی ہے۔ اب کوئی ٹرائل کورٹ یا نچلی عدالتیں کوئی بھی موثر حکم نہیں دیں گی۔ وہ سروے کے حوالے سے کوئی حکم نہیں دیں گی۔ اس معاملے کی سماعت چیف جسٹس سنجیو کھنہ کی سربراہی میں بنچ نے کی۔ عرضی میں پلیس آف ورشپ ایکٹ 1991 کی دفعہ 2 ، 3 اور 4 کو منسوخ کرنے کی مانگ کی گئی ہے۔دریں اثنا، مرکزی حکومت کو ہدایت دی گئی کہ وہ چار ہفتوں کے اندر عدالت میں تمام زیر التوا درخواستوں پر اپنا جواب داخل کرے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کتنے مقدمات ابھی زیر التوا ہیں، جن میں متھرا اور گیانواپی کے مقدمات بھی شامل ہیں۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ جب تک ہم اس معاملے کی سماعت کر رہے ہیں ،تب تک ملک میں کہیں بھی کوئی مقدمہ درج نہیں کیا جائے گا۔ چیف جسٹس سنجیو کھنہ نے کہا کہ اس معاملے میں مرکزی حکومت کا موقف جاننا بہت ضروری ہے۔ سماعت کی اگلی تاریخ تک مندر-مسجد کا کوئی نیا تنازعہ دائر نہیں کیا جائے گا۔ مرکزی حکومت جلد ہی اس سلسلے میں حلف نامہ داخل کرے گی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مزید کوئی مقدمہ درج نہیں کیا جائے گا۔ایودھیا کا فیصلہ بھی ہمارے پاس موجود ہے۔ اس پر مرکز کی طرف سے پیش سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ اس معاملے میں جلد جواب داخل کیا جائے گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس معاملے میں مرکزی حکومت کا جواب ضروری ہے۔
دراصل سپریم کورٹ میں سیاسی جماعتیں سی پی آئی ایم، انڈین یونین مسلم لیگ، این سی پی شرد پوار دھڑے کے ایم ایل اے جتیندر اوہاڑ، آر جے ڈی کے رکن پارلیمنٹ منوج کمار جھا، رکن پارلیمنٹ تھول تھروماولن، وارانسی کی گیانواپی مسجدکی انتظامیہکمیٹی اور متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد انتظامیہ کمیٹی نے مداخلت کی درخواست دائر کرکے عبادت گاہوں کے قانون کی حمایت کی ہے۔ اس سے قبل 9 ستمبر 2022 کو عدالت نے مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کیا تھا۔ عدالت نے جمعیة علماء ہند کی طرف سے قانون کی حمایت میں دائر درخواست پر بھی نوٹس جاری کیا تھا۔ عبادت گاہ قانون کو چیلنج کرتے ہوئے کاشی کے راجہ وبھوتی نارائن سنگھ کی بیٹی کماری کرشنا پریا، وکیل کرونیش کمار شکلا، ریٹائرڈ کرنل انل کبوترا، متھرا کے مذہبی رہنما دیوکینندن ٹھاکر، وکیل رودر وکرم سنگھ اور وارانسی کے سوامی جتیندرند نے درخواستیں دائر کی ہیں۔
عبادت گاہ قانون کو چیلنج کرنے والی درخواستوں میں کہا گیا ہے کہ یہ قانون غیر ملکی حملہ آوروں کے ذریعہ ان کی عبادت اور زیارت گاہوں پر غیر قانونی قبضے کو قانونی حیثیت دیتا ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ یہ قانون ہندو، سکھ، جین اور بدھ مت کے ماننے والوں کو ان کے مذہبی مقامات پر عبادت کرنے سے روکتا ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ 15 اگست 1947 کی من مانی کٹ آف تاریخ مقرر کرکے غیر قانونی تعمیرات کو قانونی حیثیت دی گئی۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ عبادت گاہوں کے قانون کی دفعہ 2، 3 اور 4 غیر آئینی ہیں۔ یہ دفعہ آئین کے آرٹیکل 14، 15، 21، 25، 26 اور 29 کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔ یہ دفعات سیکولرازم پرچوٹ کرتے ہیں، جو آئین کے تمہید کا ایک اہم حصہ ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ حکومت کو کسی بھی برادری سے لگاو یا نفرت نہیں رکھنی چاہیے، لیکن اس نے ہندو، جین، بدھ اور سکھوں کو اپنے حقوق مانگنے سے روکنے کے لیے قانون بنایا ہے۔