عبادت گا ہ ایکٹ پر سپریم کورٹ میں سماعت، حکومت نے اب تک اپنا جواب داخل نہیں کیا

جمعیة علماءہند کے وکیل نے حکومت کی خاموشی پرسوال اٹھایا۔ اگلی سماعت اپریل میں

نئی دہلی،17 فروری :۔

سپریم کورٹ نے آج (17 فروری) ” عباد ت گاہ ایکٹ1991“سے متعلق عرضیوں کی سماعت اپریل تک کے لیے موخر کر دی۔ چیف جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس سنجے کمار پر مشتمل بنچ اس معاملے کی سماعت کررہی تھی۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس معاملے میں 12دسمبر 2024 کو ایک عبوری فیصلہ سنانے کے دن تین ججوں کے بنچ نے سماعت کی تھی، جس میں چیف جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس سنجے کمار اور جسٹس کے وی وشواناتھن شامل تھے، تاہم اس بار محض دو جج ہی موجود تھے،اس بنیاد پر سماعت آگے نہ بڑھ سکی۔ آج عدالت کو مطلع کیا گیا کہ مرکزی حکومت کی طرف سے اس اہم معاملے میں ابھی تک کوئی جواب جمع نہیں کرایا گیا ہے۔
سپریم کورٹ ایک طرف اس ایکٹ” کی آئینی حیثیت چیلنج کرنے والی عرضیوں پر سماعت کر رہا ہے اور دوسری طرف صد ر جمعیة علماءہند  و دیگر کی عرضیوں پر بھی غور کر رہا ہے جس میں اس ایکٹ کے سخت نفاذ کی درخواست کی گئی ہے۔ آج جمعیة علماءہند کی طرف سے ایڈوکیٹ آن ریکاڈر منصور علی خاں اور ایڈوکیٹ نیاز احمد فاروقی پیش ہوئے۔ جمعیة کے وکلا نے حکومت کی طرف سے ہنوز جواب داخل نہ کیے جانے اور خاموشی اختیار کرنے پر سوال اٹھایااور زوردیا کہ حکومت ہند کو ملک کی سالمیت، مسئلہ کی حساسیت اور قانون کی پاسداری کا لحاظ کرتے ہوئے اپنا جواب جلد ازجلد داخل کرنا چاہیے۔
دریں اثنا  آج کی قانونی کارروائی پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ اسٹے کو برقرار رکھنے کا فیصلہ بہت اہم ہے، کیونکہ اس سے فرقہ پرست طاقتوں کی اشتعال انگیز سرگرمیوں کو روکا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ انتہائی حساس اور اہم معاملہ ہے کیونکہ اس قانون کے تسلسل سے ہی ملک کا اتحاد اور بھائی چارہ محفوظ رہ سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ فرقہ پرست طاقتوں نے ایک بار پھر اپنے انتہا پسندانہ عزائم کو بے نقاب کر دیا ہے اور نچلی عدالتوں کی طرف سے ایسے معاملات میں دیے گئے غیر ذمہ دارانہ فیصلوں سے حالات مزید خراب ہو گئے ہیں۔

واضح ہو کہ اس ایکٹ کی دفعہ 4 کے مطابق 15 اگست 1947 کو موجود عبادت گاہوں کی مذہبی نوعیت ویسی ہی رہے گی جیسی وہ اس دن تھیں۔ اس قانون کے مدنظر 12 دسمبر 2024 کو سپریم کورٹ نے ایک اہم حکم جاری کیا تھا، جس میں عبادت گاہوں کے خلاف نئے مقدمات اور سروے کے احکام پر پابندی عائد کی تھی۔ اس حکم میں یہ بھی کہا گیا کہ زیر التوا مقدمات میں کوئی موثر عبوری یا حتمی حکم نہ دیا جائے۔اس حکم کے بعد ملک میں مساجد اور درگاہوں کے خلاف فرقہ پرستوں کی طبع آزمائیوں پر روک لگی ہے ، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ الگ الگ بہانوں سے فرقہ پرست عناصر او ران کے ہم نوا مساجد و درگاہوں کو نشانہ بناتے ہیں ، اس لیے اس معاملے پر حتمی فیصلے کی سخت ضرورت ہے ، نیز حکومت سمیت سبھی بااثر لوگوں کو متحدہونے کی ضرورت ہے۔