عالمی سطح پر پہنچا شہریت ترمیمی قانون مخالف احتجاج
نئی دہلی، جنوری 19: جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے 15 دسمبر کو شروع ہونے والے اور اس کے نتیجے میں پورے ملک کو اپنے حصار میں لینے والے شہریت ترمیمی قانون مخالف مظاہرے اب ہندوستان کے ساتھ ساتھ ہندوستای برادریوں کے ذریعے یوروپ، امریکا اور دیگر ممالک تک اپنا دائرہ وسیع کر چکے ہیں۔
بیرون ملک مظاہرین میں وہاں مقیم طلبا، تاجر اور وہاں کام کرنے والے ملازمین شامل ہیں۔ آکسفورڈ، کیمبرج اور ہارورڈ سمیت متعدد غیر ملکی یونی ورسٹیوں میں بھی سی اے اے کے خلاف احتجاج کیا گیا ہے۔
سردیوں کے باوجود برلن، میونخ اور جرمنی کے دوسرے شہروں اور قصبوں میں بڑی تعداد میں ہندوستانی برادری نے سی اے اے کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا، سی اے اے کے خلاف پلے کارڈز تھامے اور نعرے لگائے کہ مذہب کی بنا پر ہندوستانی معاشرے میں امتیاز برتنے والے اس قانون کو کالعدم قرار دیا جائے۔
اطلاعات کے مطابق انگلینڈ میں ایسی کوئی یونی ورسٹی نہیں ہے جس میں وہاں کے ہندوستانی طلبا کے ذریعہ سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاج نہ کیا گیا ہو۔
انڈیاٹوڈے کے حوالے سے انگلینڈ کے بلیک پول میں مختصر مدت کے کورس کے لیے مرچنٹ نیوی آفیسر سُمت بوس (33) نے کہا کہ وہاں بہت سے ہندوستانی طلبا نہیں تھے لیکن آپ کا احتجاج ہوسکتا ہے یہاں تک کہ اگر آپ کو صرف ایک بھی ساتھل ملتا ہے۔ مشترکہ مسئلہ پر سُمت اور اس کے دو ہم جماعت ساتھی سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے دو گھنٹے تک سخت سردی میں کھڑے رہے۔
سوئٹزرلینڈ میں مغربی بنگال کے علی باغ سے تعلق رکھنے والے ایک 29 سالہ محقق ہرشل کیٹ نے سوئس نیشنل بینک کے سامنے اپنے کپڑے اتار کر صرف شارٹس میں وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف احتجاج کیا کیوں کہ مودی نے کہا تھا کہ فساد کرنے والوں کی شناخت ان کے کپڑوں کے ذریعے کی جاسکتی ہے۔
کیٹ کے مطابق جامعہ، اے ایم یو اور جواہر لال نہرو یونی ورسٹی میں طلبا پر پولیس حملوں کی ویڈیو دیکھ کر یورپ اور امریکہ میں ہندوستانی حیرت زدہ ہوگئے اور اسی وجہ سے انھوں نے احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہ بھی ان ممالک میں اقلیت ہیں جہاں وہ رہ رہے ہیں۔
آسٹریلیا میں بھی متعدد مقامات پر ہندوستانیوں نے سی اے اے کے خلاف ہینڈ بل تقسیم کرکے احتجاج کیا جس میں سی اے اے اور این آر سی کیا ہے اور اسے واپس کیوں لیا جانا چاہیے اس کی تفصیلات فراہم کی گئی ہیں۔
پولینڈ میں بھی وارسا میں چار درجن سے زائد افراد نے احتجاج کیا۔ پولینڈ میں جگیلونین یونی ورسٹی میں سماجی نفسیات کی اسسٹنٹ پروفیسر سندھوجا شنکرن کے مطابق ہندوستانیوں نے احتجاج کیا کیونکہ وہ دیکھ رہے ہیں کہ سی اے اے اور این آر سی جمہوریت اور سیکولرزم کے لیے خطرہ ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ لوگ سوشل میڈیا کے ذریعہ احتجاج کے لیے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔