عارضی کیمپوں میں مقیم آسام کے مسلمان،زندگی نہیں موت کی دعا مانگ رہے ہیں
حکومت کے ذریعہ بے دخل کئے گئے 300 سے زائد مسلم خاندان عارضی کیمپوں میں پینے کے پانی اور بیت الخلا جیسی بنیادی سہولت سے بھی محروم
نئی دہلی ،19 جون:
این آر سی کے نفاذ کی جب بحث شروع ہوتی ہے تو عام مسلمانوں میں گھروں سے بے دخلی کے احساس سے ہی تشویش کی لہر دوڑ جاتی ہے ،اس کا اندازہ اس وقت ہوا تھا جب این آر سی اور سی اے ا ے کے خلاف ملک بھر میں احتجاج شروع ہوا ۔لیکن آپ ان کے بار ے میں تصور کیجئے جو این آر سی کے شکار ہو کر عارضی کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔آسام ملک کی وہ ریاست ہے جہاں بڑی تعداد میں مسلمان این آر سی کے نفاذ کے بعد عارضی کیمپوں میں زندگی گزار رہے ہیں ۔ان کیمپوں میں حالات کیا ہیں وہ ہمارے تصور سے بھی زیادہ خوفناک اور افسوسناک ہے۔
مکتوب میڈیا سے وابستہ صحافی محمود الحسن نے اس سلسلے میں ان عارضی کیمپوں میں مقیم مسلمانوں کی حالت زار کو دنیا کے سامنے لانے کی کوشش کی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق 17 جون کی صبح جب ملک بھر کےمسلمان عید الاضحی منارہے تھے ۔اس وقت آسام کے ہوجائی ضلع کے عارضی کیمپ میں مقیم سیکڑوں آسامی مسلمانوں میں خاموشی تھی۔ان کیمپوں میں پانی بھر گئے ہیں ۔
عارضی میں کیمپ میں مقیم نورالاسلام کہتے ہیں کہ اس زندگی سے بہتر مرجانا ہے۔یہ زندگی نہیں ہے ہم لوگ یہاں ہرروز مرتے ہیں۔اس کیمپ میں 350خاندان آباد ہیں جنہیں اپنے گھروں سے بے دخل کردیاہے۔یہ کیمپ فٹ بال سائز کے دومیدانوں میں آباد ہیں ۔
واضح رہے کہ2021 میں بی جے پی کی قیادت والی آسام حکومت نے لمڈنگ جنگل میں پانچ دن کی بے دخلی مہم کے بعد پسماندہ کمیونٹیز، قبائلیوں اور مسلمانوں کے تقریباً 3000 افراد کو بے گھر کر دیا گیا اور انہیں عارضی پناہ گاہوں میں منتقل کردیا گیا۔
آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنتا بسوا شرما نے 2021 میں دعویٰ کیاتھا کہ لمڈنگ جنگل کا تقریباً نصف حصہ بارپیٹا، ناگاؤں اور دھوبری اضلاع کے لوگوں نے گزشتہ برسوں کے دورا ن قبضہ کرلیا تھا۔سرمانے دعویٰ کیا تھا کہ ان جنگلوں پر قبضہ 2012میں کیا گیا ۔ان قابضین جنگل کا تقریبا نصف درخت کاٹ دیے ہیں اور 25 کروڑ روپے کے سالانہ کاروبار کے ساتھ ادرک کی کاشت شروع کر دی گئی تھی۔
بے دخلی مہم کے دوران ریاستی حکومت نے1 ,410ہیکٹر اراضی سےقبضے کو ختم کرتے ہوئے 700سے زائدمکانات خالی کرائے تھے۔ان خاندانوں کو قریبی علاقوں میں منتقل کر دیا گیا، ان میں سے 350 خاندانوں کو بے دخل کیے گئے مقام سے تقریباً 50 کلومیٹر دور منتقل کر دیا گیا۔کیمپ میں عارضی خیمے نازک ہیں اور زیادہ بارش اور طوفان کا شکار ہیں۔ کیمپ میں پانی بھرنے کی وجہ سے یہاں کے مقیم افراد کی صحت کو سخت خطرات لاحق ہوگئے ہیں ۔
60 سالہ نور الاسلام نے کہا کہ گزشتہ تقریباً تین سالوں میں حکومت کی جانب سے خاندانوں کے لیے صرف ترپال کی چادریں فراہم کی گئی ہیں۔ اس عید پر ان بچوں نے منانا تھا، لیکن دیکھیں ان کے پاس کپڑے تک نہیں ہیں، کیمپ میں سیلاب آنے کی وجہ سے کہاں منائیں؟۔اب کہاں جانا ہے؟
آپ بیت الخلاء کا استعمال بھی نہیں کر سکتے، وہ سیلاب میں ڈوب گئے ہیں۔ خوراک، لباس اور رہائش – یہ ہماری بنیادی ضروریات ہیں، یہ ہمارے حقوق ہیں۔ پانی بھی پینے کے قابل نہیں۔ لوگ تکلیف میں ہیں۔ ہمارے حقوق پر مکمل طور پر ڈاکہ ڈال دیا گیاہے اور حکومت ہمیں ہردن بدترین حالت کی طرف ڈھکیل رہی ہے۔اس زندگی سے بہتر ہے کہ ہمیں ماردیا جائے۔
اے آئی یو ڈی ایف کے ایم ایل اے اشرف حسین، جو جبری بے دخلی مہم سے متعلق مسائل پر آواز اٹھاتے رہے ہیں، نے اسے’’انسانی حقوق کی خلاف ورزی‘‘قرار دیا ۔ان کی بازآبادکاری کیلئے فوری اقدمات کی ضرورت ہے۔
آسام میں ایشین سینٹر فار ہیومن رائٹس نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ وہاں3لاکھ سے زائد افراد آسام میں بے گھر ہیں ۔ہوجائی، درنگ، سونیت پور، اور بارپیٹا میں بے دخلی کے بعد یہ پتہ چلا ہے کہ بے دخل کیے گئے ان میں سے بہت سے لوگ دریا کے کٹاؤ کے شکار ہیں اور برسوں سے حکومت نے ان کی بازآبادکاری نہیں کی ہے۔