طلبا پر پولس مظالم کا بیان کرتے ہوئے رو پڑا طالبِ علم مصطفیٰ

نئی دہلی، دسمبر 17: جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ماسٹر آف سوشل ورک (ایم ایس ڈبلیو) کے پہلے سال کے طالب علم محمد مصطفی پولس کے مظالم کا بیان کرتے ہوئے کہ کس طرح بے رحمی سے پولیس اہلکاروں نے اس کے ہاتھ ، پیر اور اس کے پاؤں کو توڑا اور اسے مار ڈالا، رو پڑے۔ مصطفیٰ نے بتایا کہ جب وہ 15 دسمبر 2019 کی رات کو یونی ورسٹی لائبریری کے پڑھنے والے کمرے میں تعلیم حاصل کر رہے تھے تو اسے "کلمہ” پڑھنے کو کہا گیا۔

انھوں نے منگل کو پریس کلب آف انڈیا میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں میڈیا کے سامنے ان پرہوئے  پولیس مظالم کے بارے میں بات کی۔

مصطفیٰ نے بتایا کہ لائبریری کے اس کمرے میں 10 لڑکیاں اور 15 لڑکے تھے۔ مسلح اہلکاروں کے ایک گروپ نے دروازہ توڑ دیا، کمرے میں داخل ہوئے اور طلبا کو فرقہ وارانہ خطوط پر بے رحمی سے مارا۔ میں ایک کونے میں پڑھ رہا تھا۔ اچانک پولیس نے گھس کر میرے سر پر حملہ کردیا۔ جب میں نے اپنے سر کی حفاظت کے لیے اپنے بازو اٹھائے تو پولیس اہلکار نے میرے دونوں بازوؤں اور ایک ٹانگ کو توڑ کر مجھے باہر گھسیٹ لیا۔ اس دوران میں بے ہوش ہوگیا۔ جب مجھے ہوش آیا تو میں یونی ورسٹی کے مین گیٹ پر تھا اور پولیس مجھے "اب کلمہ پڑھ لے” کہہ کر مار رہی تھی۔‘‘

واضح رہے کہ ہندوستانی مسلمانوں میں یہ ایک عام رواج ہے کہ جب انھیں لگتا ہے کہ وہ آخری سانس لینے والے ہیں تو وہ پہلا کلمہ پڑھتے ہیں، صرف ایک خدا پر اعتقاد ظاہر کرتے ہیں اور پیغمبر اسلام محمد کو اللہ کا رسول قرار دیتے ہیں۔

انھوں نے کہا ’’بعد میں پولیس مجھے اور 69 دیگر لوگوں کو شام 6.30 بجے نیو فرینڈس کالونی پولیس اسٹیشن لے گئی اور فرش پر بیٹھا دیا۔ میرے بازوؤں اور پیروں میں شدید درد تھا۔ میں نے یہ کہتے ہوئے دوا کی التجا کی کہ میں چوٹ سے مرجاؤں گا۔ پولیس افسر نے مجھے دوا دینے کے بجائے کہا کہ اسے مرنے دو۔‘‘  مصطفیٰ نے بتایا ’’پولیس ہمیں شام 7 بجے ایمس ٹروما سنٹر لے گئی اور ہمیں اسپتال سے فارغ کردیا گیا اور اگلی صبح صبح 6.30 بجے پولیس نے ہمیں رہا کیا۔‘‘

اپنے مصائب کی داستان سناتے ہوئے مصطفی نے روتے ہوئے کہا "جو ملک مذہبی خطے پر چلتا ہے وہ برباد ہو گیا ہے۔ پاکستان اس کی بہترین مثال ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی حکومت کو چاہیے کہ اچھے اچھے کام جیسے سوچھتا ابھیان اور دوسرے اچھے کام کرے۔ اس کو شہریت ترمیمی قانون جیسی عوام دشمن پالیسی بنانا چھوڑ دینا چاہیے۔”

اس موقع پر انسانی حقوق کے کارکن اور دہلی یونی ورسٹی کے پروفیسر اپوروانند نے میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب کچھ وزارت داخلہ اور وزیر داخلہ امت شاہ کی ہدایت پر کیا گیا ہے۔ یہ دونوں جرمنی کی طرح جے ایم آئی اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے طلبا پر بے رحمانہ حملے کے لیے جوابدہ ہیں جہاں گیس چیمبروں میں یہودیوں کے قتل کا حکم دینے والے اور حکم پر عمل درآمد کرنے والوں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے تھے۔

وزیر اعظم نریندر مودی کے ان بیانات کے بارے میں کہ "ماؤوادی، الگاووادی اور جہادی” کی شناخت ان کے کپڑوں سے ہوتی ہے، اپوریوانند نے کہا کہ اس طرح کی زبان نے ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف عوام کو مشتعل کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ملک خانہ جنگی کی طرف گامزن ہے۔

حقوق انسانی کی ایک اور کارکن فرح نقوی نے حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ شہریت کے نئے قانون کے خلاف تحریک کو کم کرنے کے لیے طاقت کے استعمال سے گریز کریں۔ انھوں نے کہا کہ حکومتی پالیسی کے خلاف احتجاج کرنا تمام شہریوں کا جمہوری حق ہے۔ انھوں نے کہا کہ 15 دسمبر، جب پولیس نے جامعہ کے طلبا پر حملہ کیا تھا، ہندوستان کی تاریخ کا یوم سیاہ تھا۔