”صرف تمل ناڈو،آندھرا،اور تلنگانہ کے مندروں کے پاس وقف سے کہیں زیادہ اراضی“
انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر میں وقف ترمیمی بل 2024 کے خلاف منعقد کانفرنس میں دانشوروں کا اظہار خیال
دہلی،10ستمبر :۔
وقف ترمیمی بل 2024 کے خلاف ہر سطح پر مسلم تنظیمیں اور ادرے سر گرم ہیں ۔گزشتہ روز انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر نے ’وقف ترمیمی بل 2024‘ پر سینٹر کے صدر و سابق مرکزی وزیر سلمان خورشید کی سربراہی اور نائب صدر محمد فرقان احمد کی نگرانی میں ایک قومی کانفرنس کا انعقاد کیا۔ اس میں سینٹر کے ممبران کے علاوہ ملک کے معروف دانشور، وکلاء، بیوروکریٹس، لیڈران، غیر سرکاری رضاکار تنظیموں کے ذمہ داران اور سماجی کارکنان نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
کانفرنس میں مجوزہ وقف ترمیمی بل کو مسترد کرنے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے اس کی بھر پور مخالفت کا فیصلہ کیا گیا۔ مقررین نے اس کے خلاف مشترکہ پارلیمانی کمیٹی اور دیگر پلیٹ فارم پر بھی آواز اٹھانے کا اعلان کیا۔ مقرین نے کہا کہ مجوزہ وقف بل سے حکومت کی بدنیتی اور اس کے برے ارادوں کی نشاندہی ہوتی ہے۔ اگر یہ قانون بن گیا تو اس سے مساجد، مدارس، قبرستان، درگاہ، کربلا اور خانقاہیں محفوظ نہیں رہیں گی۔ حکومت موجودہ وقف قانون میں ایسی تبدیلیاں کرنا چاہتی ہے جس سے وقف املاک پر غیر قانونی قبضہ داروں، مافیاؤں کے قبضہ کی راہ ہموار ہو جائے۔
دانشوروں نے اس تاثر کو بھی سختی سے مسترد کیا کہ وقف کے پاس ریلوے کے بعد سب سے زیادہ جائیدادیں ہیں۔ مقررین نے نشاندہی کی کہ صرف تمل ناڈو، آندھرا پردیش اور کسی حد تک تلنگانہ کے مندروں کے پاس وقف سے کہیں زیادہ اراضی ہے۔ کانفرنس میں یہ احساس ابھر کر آیا کہ موجودہ وقف ترمیمی بل کا مقصد مسلمانوں سے دشمنی نکالنے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔ شرکاء نے کہا کہ بل کا مسودہ کسی ایسے شخص نے تیار کیا ہے جو وقف کے تصور سے بھی ناواقف ہے۔ اس بل میں وہ تمام خرابیاں موجود ہیں جس سے وقف جائیدادیں پوری طرح خطرہ سے دوچار ہو جائیں گی۔اس تقریب میں بل کے سیاسی اور سماجی پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی گئی
کانفرنس میں تمام شرکاء نے یک زبان کہا کہ مجوزہ بل اگر منظور ہوا تو اس کے نتیجہ میں وقف کی شکل و صورت اور حیثیت ختم ہو جائے گی۔ برسراقتدار جماعت اسے تباہ کرنا چاہتی ہے۔ حالانکہ وقف سے مستفید ہونے والوں میں بیوائیں، غریب، یتیم اور مساکین شامل ہیں۔ وقف جائیدادوں میں قبرستان، مساجد، درگاہ، کربلا، خانقاہ اور دیگر مذہبی مقامات شامل ہیں جنہیں اس بل کی وجہ سے خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ لہٰذا تمام شرکاء اور حاضرین نے ذاتی طور پر اور دیگر تنظیموں کے ذمہ داروں کی جانب سے بل کو مکمل طور پر مسترد کرنے کی تجویز پاس کی گئی۔